Social Welfare
عدم مساوات کے خاتمے کی مہم میں ہندوستان کی کامیابی
ورلڈ بینک نے ہندوستان کو دنیا کے سب سے زیادہ مساوی معاشروں کی فہرست میں شامل کیا ہے
Posted On: 05 JUL 2025 10:20AM
کلیدی نکات
ہندوستان 25.5 کے گنی اسکور کے ساتھ آمدنی کی مساوات میں دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے
عالمی بینک کے مطابق 23-2022 میں شدید غریبی کم ہو کر 2.3 فیصد رہ گئی
23-2011کے درمیان 171 ملین ہندوستانی انتہائی غربت سے باہر نکل آئے ہیں۔
تعارف

بھارت نہ صرف دنیا کی چوتھی سب سے بڑی معیشت ہے بلکہ آج یہ دنیا کے سب سے زیادہ مساوات والے معاشروں میں سے ایک بھی ہے۔ عالمی بینک کے مطابق، بھارت کا گنی انڈیکس 25.5 ہے، جو اسے سلوواک ریپبلک، سلووینیا اور بیلاروس کے بعد دنیا کا چوتھا سب سے زیادہ مساوات والا ملک بناتا ہے۔ یہ ایک غیر معمولی کامیابی ہے، خاص طور پر ایک ایسے ملک کے لیے جو اپنے حجم اور تنوع کے لحاظ سے بے مثال ہے۔ یہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ بھارت کی اقتصادی ترقی کس طرح اس کی آبادی کے درمیان زیادہ منصفانہ انداز میں تقسیم ہو رہی ہے۔ اس کامیابی کے پیچھے غربت میں کمی، مالی رسائی کو وسعت دینے، اور فلاحی امداد کو براہ راست ضرورت مند افراد تک پہنچانے پر مستقل پالیسی توجہ کارفرما ہے۔
گنی انڈیکس کوسمجھنا
گنی انڈیکس ایک سادہ مگر مؤثر طریقہ ہے جس کے ذریعے کسی ملک میں آمدنی، دولت یا اخراجات کی تقسیم افراد یا گھرانوں کے درمیان کس حد تک مساوی ہے، اسے سمجھا جا سکتا ہے۔ اس کی قدر صفر سے 100 کے درمیان ہوتی ہے۔ اگر اسکورصفر ہو تو اس کا مطلب ہے مکمل مساوات، یعنی ہر فرد کو برابر حصہ ملا ہے۔ اگر اسکور 100 ہو تو اس کا مطلب ہے کہ تمام آمدنی، دولت یا اخراجات صرف ایک فرد کے پاس ہیں اور باقی سب کے پاس کچھ بھی نہیں، یعنی مکمل عدم مساوات۔ جتنا زیادہ گنی انڈیکس ہوگا، ملک میں اتنی ہی زیادہ معاشی عدم مساوات ہوگی۔

گنی انڈیکس کو گراف کی صورت میں لورینز کرو کے ذریعے سمجھایا جا سکتا ہے۔ لارینز کور وصول کنندگان کی مجموعی تعداد کے مقابلے میں موصول ہونے والی کل آمدنی کے مجموعی فیصد کوظاہر کرتا ہے، جس کا آغاز غریب ترین فرد یا گھرانے سے ہوتا ہے ۔ اگر آمدنی کی تقسیم مکمل طور پر مساوی ہو، تو اسے ایک ترچھی لکیر سے دکھایا جاتا ہے، جبکہ اصل آمدنی کی تقسیم لورینز کرو کے ذریعے ظاہر ہوتی ہے۔
گنی انڈیکس لورینز منحنی خطوط اور کامل مساوات کی ایک خیالی لکیر کے درمیان کے رقبے کی پیمائش کرتا ہے، یا دونوں کے درمیان فرق، جس کا اظہار لائن کے نیچے زیادہ سے زیادہ رقبہ کے فیصد کے طور پر کیا جاتا ہے۔ فرق جتنا بڑا ہوگا، اتنی ہی غیر مساوی آمدنی ہوگی۔ یہی فرق ہمیں ایک واضح عدد فراہم کرتا ہے جو یہ بتاتا ہے کہ آمدنی کس حد تک منصفانہ طور پر تقسیم ہوئی ہے۔
مساوات میں بھارت کا عالمی رتبہ
ورلڈ بینک کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، بھارت کا گنی انڈیکس 25.5 ہے۔ یہ اسے نسبتاً مساوات کے اعتبار سے دنیا کے سب سے زیادہ مساوی ممالک میں شامل کرتا ہے۔ بھارت کا یہ اسکور چین کے 35.7 کے مقابلے میں کافی کم ہےاور امریکہ کے 41.8 کے مقابلے میں تو بہت ہی کم ہے۔ بھارت جی7 اور جی20 کے تمام ممالک سے بھی زیادہ مساوات والا ملک ہے، حالانکہ ان میں سے زیادہ تر ممالک کو ترقی یافتہ معیشتیں سمجھا جاتا ہے۔

بھارت ‘‘درمیانے درجے کی کم’’ عدم مساوات والے زمرے میں آتا ہے، جس میں گنی اسکور 25 سے 30 کے درمیان ہوتا ہے۔ بھارت اس وقت اس زمرے میں ہے اور صرف ایک معمولی فرق سے‘‘کم عدم مساوات’’ والے گروپ میں شامل ہونے سے پیچھے ہے۔ اس گروپ میں سلوواک ریپبلک اسکور 24.1، سلووینیا 24.3 اور بیلاروس 24.4 جیسے ممالک شامل ہیں۔ ان تین ممالک کے علاوہ، بھارت کا اسکور دنیا کے باقی 167 ممالک سے بہتر ہے، جن کے لیے عالمی بینک نے اعداد و شمار جاری کیے ہیں۔
عالمی سطح پر صرف 30 ممالک ایسے ہیں جو ‘‘درمیانے درجے کی کم’’ عدم مساوات کے زمرے میں آتے ہیں۔ ان میں کئی یورپی ممالک شامل ہیں جن کے فلاحی نظام مضبوط ہیں، جیسے آئس لینڈ، ناروے، فن لینڈ اور بیلجیئم۔ اس زمرے میں ابھرتی ہوئی معیشتیں جیسے پولینڈ اور خوشحال ممالک جیسے متحدہ عرب امارات بھی شامل ہیں۔
بھارت کی زیادہ مساوات والے معاشرے کی طرف پیش رفت اس کے گنی انڈیکس میں وقت کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے۔ 2011 میں بھارت کا انڈیکس 28.8 تھا، جو 2022 میں کم ہو کر 25.5 پر آ گیا۔ یہ مسلسل تبدیلی اس بات کی علامت ہے کہ بھارت نے اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ سماجی برابری کے میدان میں بھی مسلسل بہتری حاصل کی ہے۔
غربت میں کمی زیادہ مساوات کا باعث بنتی ہے
بھارت کاگنی انڈیکس پر مضبوط موقف کوئی اتفاق نہیں بلکہ اس کی دیہی اور شہری دونوں علاقوں میں غربت میں مسلسل کمی کی کامیابی سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔ ورلڈ بینک کی اسپرنگ 2025 کی ‘‘پاورٹی اینڈ ایکوئٹی بریف’’ میں اس کامیابی کو حالیہ برسوں کی سب سے نمایاں کامیابیوں میں سے ایک قرار دیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، گزشتہ دہائی کے دوران 17 کروڑ 10 لاکھ بھارتیوں کو انتہائی غربت سے نکالا گیا ہے۔ ان افراد کا تناسب جو روزانہ 2.15 امریکی ڈالر سے کم پر زندگی گزار رہے تھے جو کہ جون 2025 تک عالمی سطح پر انتہائی غربت کی حد تھی وہ12-2011 میں 16.2 فیصد سے کم ہو کر23-2022 میں صرف 2.3 فیصد رہ گیا۔ اگر ورلڈ بینک کی نئی غربت کی حد یعنی 3.00 امریکی ڈالر فی دن کو مدنظر رکھا جائے، تو23-2022 میں غربت کی شرح 5.3 فیصد بنتی ہے۔

اہم سرکاری اقدامات
بھارت کی آمدنی میں زیادہ مساوات کی جانب پیش رفت متعدد مربوط سرکاری اقدامات کا نتیجہ ہے۔ ان اسکیموں کا مقصد مالی رسائی کو بہتر بنانا، فلاحی فوائد کو مؤثر طریقے سے فراہم کرنا اور پسماندہ اور نظرانداز شدہ طبقات کی مدد کرنا ہے۔ ان تمام اقدامات نے مل کر معاشرتی فرق کو کم کرنے، روزگار کے مواقع کو بڑھانے اور اس بات کو یقینی بنانے میں مدد کی ہے کہ ترقی کا فائدہ معاشرے کے ہر طبقے تک پہنچے۔
کچھ اہم اسکیمیں اور اقدامات درج ذیل ہیں:
پی ایم جن دھن یوجنا:مالی شمولیت بھارت کی سماجی مساوات کی کوششوں کا مرکز رہی ہے۔ 25 جون 2025 تک، 55.69 کروڑ سے زائد افراد نے جن دھن اکاؤنٹس کھولے ہیں، جس سے انہیں سرکاری فوائد اور رسمی بینکاری خدمات تک براہ راست رسائی حاصل ہوئی ہے۔
آدھار اور ڈیجیٹل شناخت:آدھار نے ملک بھر کے باشندوں کے لیے ایک منفرد ڈیجیٹل شناخت کا نظام فراہم کیا ہے۔ 3 جولائی 2025 تک، 142 کروڑ سے زائد آدھار کارڈ جاری کیے جا چکے ہیں۔ یہ نظام فلاحی اسکیموں کی ترسیل میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، جو یقینی بناتا ہے کہ مستحق افراد کو درست وقت پر، درست تصدیق کے ذریعے فوائد پہنچیں۔
براہ راست فوائد کی منتقلی(ڈی بی ٹی):ڈی بی ٹی نظام نے فلاحی ادائیگیوں کو مؤثر اور شفاف بنایا ہے، جس سے بدعنوانی اور تاخیر میں کمی آئی ہے۔ مارچ 2023 تک اس نظام کے تحت کل بچت3.48 لاکھ کروڑ تک پہنچ چکا ہے، جو اس کی افادیت اور وسعت کو ظاہر کرتا ہے۔
آیوشمان بھارت:معیاری صحت کی سہولیات تک رسائی سماجی مساوات کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ آیوشمان بھارت اسکیم ہر خاندان کو سالانہ5 لاکھ تک کا صحت بیمہ فراہم کرتی ہے۔ 3 جولائی 2025 تک، 41.34 کروڑ سے زائد آیوشمان کارڈ جاری کیے جا چکے ہیں۔ اس اسکیم کی معاونت کے لیے ملک بھر میں 32,000 سے زائد تسلیم شدہ اسپتال کام کر رہے ہیں۔اس کے علاوہ، حکومت نے آیوشمان وے وندنا اسکیم شروع کی ہے، جو 70 سال یا اس سے زائد عمر کے تمام شہریوں (آمدنی سے قطع نظر) کو صحت کوریج فراہم کرتی ہے۔آیوشمان بھارت ڈیجیٹل مشن نے ان کوششوں کو مزید مضبوط کیا ہے، جس کے تحت 79 کروڑ سے زائد ڈیجیٹل صحت اکاؤنٹس بنائے جا چکے ہیں، جو افراد کو ڈیجیٹل صحت خدمات سے جوڑتے ہیں۔
اسٹینڈ اپ انڈیا:شمولیتی کاروباریت کو فروغ دینے کے لیے، اسٹینڈ اپ انڈیا اسکیم درج فہرست ذات/درج فہرست قبائل اور خواتین کاروباریوں کو 10 لاکھ سے 1 کروڑ تک کے قرض فراہم کرتی ہے تاکہ وہ گرین فیلڈ انٹرپرائزز قائم کر سکیں۔ 3 جولائی 2025 تک، 2.75 لاکھ سے زائد درخواستیں منظور کی جا چکی ہیں، جن کے تحت مجموعی طور پر 62,807.46 کروڑ کی فنڈنگ کی گئی ہے۔ یہ پہل پسماندہ طبقات کو خود انحصاری کے ساتھ معاشی ترقی میں شامل ہونے کا موقع دیتی ہے۔
پردھان منتری غریب کلیان ان یوجنا (پی ایم جی کے اے وائی):خوراک کا تحفظ ،سماجی تحفظ کا ایک اہم ستون ہے۔ یہ اسکیم کووڈ-19 وبا کے دوران شروع کی گئی تھی اور اب بھی معاشرے کے سب سے پسماندہ طبقات کی مدد کر رہی ہے۔ دسمبر 2024 تک، یہ اسکیم 80.67 کروڑ مستفیدین تک پہنچ چکی ہے، جنہیں مفت اناج فراہم کیا جا رہا ہے، تاکہ بحران کے وقت کوئی بھی پیچھے نہ رہ جائے۔
پی ایم وِش وکرمہ یوجنا:روایتی ہنر مند کاریگر اور دستکار بھارت کے معاشی اور ثقافتی نظام کا اہم حصہ ہیں۔ پی ایم وِشوکرما یوجنا انہیں بغیر ضمانت قرض، آلات، ڈیجیٹل تربیت اور مارکیٹنگ معاونت فراہم کرتی ہے۔ 3 جولائی 2025 تک، اس اسکیم کے تحت 29.95 لاکھ افراد نے اندراج کرایا ہے، جو دیہی اور نیم شہری علاقوں میں روزگار کے تحفظ اور جامع ترقی کو فروغ دے رہا ہے۔
|
اختتام
بھارت کی آمدنی میں مساوات کی جانب پیش قدمی مستقل اور مربوط رہی ہے۔ گنی انڈیکس کا 25.5 کا اسکور محض ایک عدد نہیں بلکہ لوگوں کی زندگیوں میں حقیقی تبدیلی کی عکاسی کرتا ہے۔ اب زیادہ سے زیادہ خاندانوں کو خوراک، بینکاری، صحت کی سہولیات اور روزگار تک رسائی حاصل ہو رہی ہے۔
بھارت کو الگ بنانے والی بات یہ ہے کہ اس نے اقتصادی اصلاحات کو مضبوط سماجی تحفظ کے ساتھ متوازن رکھا ہے۔ جن دھن، ڈی بی ٹی (براہِ راست فائدہ منتقلی)اور آیوشمان بھارت جیسے مخصوص منصوبوں نے طویل عرصے سے موجود خلاء کو پاٹنے میں مدد کی ہے۔ وہیں اسٹینڈ اپ انڈیا اور پردھان منتری ویشوکرما یوجنا جیسے پروگرام لوگوں کو اپنی شرائط پر دولت پیدا کرنے اور روزگار حاصل کرنے کا موقع فراہم کر رہے ہیں۔
جب دنیا ایسے ماڈلز کی تلاش میں ہے جو ترقی کو انصاف کے ساتھ جوڑتے ہیں، تو بھارت کی مثال نمایاں طور پر سامنے آتی ہے۔ اس کا تجربہ ثابت کرتا ہے کہ مساوات اور ترقی الگ الگ اہداف نہیں ہیں۔ جب انہیں مؤثر پالیسی اور جامع ارادے سے تقویت دی جائے تو یہ دونوں ایک ساتھ آگے بڑھ سکتے ہیں۔
حوالہ جات:
عالمی بینک :
پی آئی بی بیک گراؤنڈرس:
او آرایف:
پی ڈی ایف دیکھنے کیلئے یہاں کلک کریں
*************
(ش ح ۔ع ح۔ص ج (
U. No.2545
(Backgrounder ID: 154843)
Visitor Counter : 58