Social Welfare
بھارت کی کلاسیکی زبانیں
بھارت کی لسانی وراثت کا تحفظ
Posted On:
27 OCT 2025 10:02AM
|
اہم نکات
- حکومت ہند نے 3 اکتوبر 2024 کو مراتھی، پالی، پراکرت، آسامی اور بنگالی زبانوں کو ‘‘کلاسیکی زبان’’ کا درجہ عطا کیا۔
- اکتوبر 2025 تک، کل 11 بھارتی زبانوں کو کلاسیکی زبان کا درجہ حاصل ہے۔
- سن 2004 سے 2024 کے درمیان، چھ بھارتی زبانوں — تمل، سنسکرت، کنڑ، تیلگو، ملیالم اور اڑیہ — کو کلاسیکی زبان کا درجہ دیا گیا تھا۔
|
تعارف
بھارت کی لسانی وراثت نہایت قدیم، متنوع اور خوشحال ہے، اور ملک کے مختلف حصوں میں بے شمار زبانیں اور بولیاں بولی جاتی ہیں۔حکومت ہند، مختلف پالیسیوں، پروگراموں اور اقدامات کے ذریعے ملک کی لسانی وراثت کے تحفظ اور فروغ کے لیے مسلسل کام کر رہی ہے۔ان زبانوں کو شناخت اور فروغ دیتے ہوئے، ان میں سے قدیم جڑوں والی زبانوں کو ‘‘کلاسیکی زبان’’ کا درجہ دینا ایک اہم قدم ہے — وہ زبانیں جو ہزاروں برسوں کی ادبی، فلسفیانہ اور ثقافتی وراثت کی حامل ہیں اور بھارت کی ثقافتی شناخت کو تشکیل دیتی ہیں۔حکومت ہند مخصوص معیارات پر پورا اترنے والی زبانوں کو ‘‘کلاسیکی زبان’’ کا درجہ عطا کرتی ہے اور ان کے تحفظ اور فروغ کے لیے معاونت فراہم کرتی ہے۔3 اکتوبر 2024 کو مرکزی کابینہ نے مراٹھی، پالی، پراکرت، آسامی اور بنگالی کو اس زمرے میں شامل کرنے کی منظوری دی، جس سے ملک میں کلاسیکی زبانوں کی کل تعداد 11 ہو گئی۔
کلاسیکی زبان کا درجہ کیوں اہم ہے
کسی زبان کو کلاسیکی زبان کے طور پر تسلیم کرنا دراصل اس کے تاریخی و تہذیبی اہمیت اور بھارت کی ثقافتی و فکری شناخت پر اس کے گہرے اثرات کو اعتراف اور احترام دینے کا ایک ذریعہ ہے۔یہ درجہ نہ صرف ان زبانوں کی عظمت و وقار کو بڑھاتا ہے بلکہ ان میں پوشیدہ ہزاروں سال پرانے علمی، فلسفیانہ اور اقدارکےتحفظ اورتشہیر میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔ کلاسیکی زبان کا درجہ حاصل ہونے سے ان زبانوں کے تحفظ، فروغ اور تحقیقی و تعلیمی مطالعےکو تقویت ملتی ہے، جس سے یہ یقین دہانی ہوتی ہے کہ یہ زبانیں عصرِ حاضر میں بھی معنویت اور افادیت رکھتی رہیں۔
کسی زبان کو ‘‘کلاسیکی بنانے والے عوامل
حکومت ہند نے، وزارتِ ثقافت کے ذریعے اور لسانی و تاریخی ماہرین سے مشاورت کے بعد، کسی زبان کو کلاسیکی زبان کا درجہ دینے کے لیے کچھ معیارات مقرر کیے ہیں۔
کسی زبان کو کلاسیکی قرار دینے کے لیے درج ذیل نکات کو مدنظر رکھا جاتا ہے:
- زبان کے ابتدائی متون یا تحریری تاریخ کی قدامت جو تقریباً 1500 تا 2000 سال پر محیط ہو۔
- اس زبان میں ایساقدیم ادبی ذخیرہ یا متون موجود ہوں جو نسل در نسل بولنے والوں کے لیےوراثت کی حیثیت رکھتے ہوں۔
- زبان میں علمی متون ، خاص طور پر نثری تحریریں ، کے ساتھ ساتھ شعری، کتبہ جاتی اور سنگی تحریروں کے شواہد موجود ہوں۔
- کلاسیکی زبان اور اس کا ادب اپنی موجودہ شکل سے مختلف ہو سکتا ہے یا اس کے بعد کی زبانوں سے اس میں تسلسل کا فقدان پایا جا سکتا ہے۔
بھارت کی لسانی وراثت کا فروغ: 2024 میں نئے اضافہ
سن 2004 سے 2014 کے درمیان چھ زبانوں — تمل، سنسکرت، تیلگو، کنڑ، ملیالم اور اڑیہ کو کلاسیکی زبان کا درجہ دیا گیا ۔3 اکتوبر 2024 کو مرکزی کابینہ نے مراٹھی، پالی، پراکرت، آسامی اور بنگالی کو اس فہرست میں شامل کرنے کی منظوری دی، جس کے بعد بھارت میں تسلیم شدہ کلاسیکی زبانوں کی کل تعداد گیارہ ہو گئی۔
مراٹھی
مراٹھی ایک ہند-آریائی زبان ہے جو بنیادی طور پر ریاست مہاراشٹر میں بولی جاتی ہے۔ یہ زبان ایک ہزار سال سے زیادہ پرانی ادبی روایت کی حامل ہے۔تقریباً 11 کروڑ مادری بولنے والوں کے ساتھ، مراٹھی دنیا کی 15 سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں شامل ہے۔
مراٹھی کی جڑیں تقریباً 2500 سال پیچھے تک جاتی ہیں۔ اس کا ارتقا قدیم زبانوں جیسے پراچین مہارتھی، مہارتھی، مہاراشٹری پراکرت اور اپبھرمش مراتھی سے ہوا۔اگرچہ اس زبان نے مختلف تاریخی ادوار میں نمایاں تبدیلیاں دیکھی ہیں، مگر اس نے اپنے لسانی تسلسل کو برقرار رکھا ہے۔
- جدید مراٹھی کا ارتقا ان قدیم زبانوں سے ہوا جو اس خطے میں بولی جاتی تھیں، خاص طور پر مہاراشٹری پراکرت سے جو ساتواہن عہد (دوسری صدی قبل مسیح تا دوسری صدی عیسوی) کے دوران بولی جانے والی پراکرت بولیوں میں سے ایک تھی۔
مراٹھی ادب کا سرمایہ
- گاتھا سپتشتی مراٹھی کا سب سے قدیم معروف ادبی شاہکار ہے، جو تقریباً 2000 سال پرانا ہے اور ابتدائی مراٹھی شاعری کی اعلیٰ روایات کو نمایاں کرتا ہے۔
- یہ شاعری کا مجموعہ ہے جو ستواہن کنگ ہالا سے منسوب ہے اور غالباً پہلی صدی عیسوی میں مرتب کیا گیا تھا۔اس کے بعد، جب مراتھی زبان تقریباً آٹھ صدی قبل اپنے پختہ لسانی مرحلے میں داخل ہوئی، تو لیلا چرتراور جنیشوری جیسے اہم ادبی متون وجود میں آئے۔
- مراٹھی کی قدیم سنگی تحریریں، تانبے کی تختیاں، مخطوطات اور مذہبی متون (پوتھیاں) اس زبان کی تاریخی گہرائی اور ثقافتی دولت کو خوبصورتی سے ظاہر کرتے ہیں۔
- نانے گھاٹ نوشتہ کاری آرٹ کا ایک غیر معمولی کام ہے، جو ڈھائی ہزار سال پہلے کے دور میں مراٹھی کے استعمال کا ثبوت فراہم کرتی ہے۔
- مراٹھی کا ذکر قدیم بھارتی متون مثلاً ونیا پٹک ، دیپونسہ اور مہاونسہ میں بھی ملتا ہے، اس کے علاوہ مشہور سنسکرت ادیبوں جیسے کالی داس اور ورروچی کے کاموں میں بھی مراٹھی کے حوالہ جات پائے جاتے ہیں۔
- مراٹھی کی ادبی وراثت میں سنت گیانیشور، سنت نام دیو، سنت تُکارام اور دیگر متعدد بزرگ شعرا و فلسفیوں کے عظیم کام شامل ہیں، جن کی علمی و روحانی خدمات آج بھی بڑی عقیدت اور احترام کے ساتھ یاد کی جاتی ہیں۔
پالی
قدیم بھارت کی تاریخ کی دوبارہ تشکیل کے لیے پالی زبان کا مطالعہ نہایت ضروری ہے، کیونکہ اس کے ادب میں ماضی پر روشنی ڈالنے والے قیمتی تاریخی و ثقافتی مواد شامل ہیں۔بہت سے پالی متون آج بھی مخطوطات کی شکل میں موجود ہیں جن تک رسائی انتہائی محدود ہے۔ سری لنکا، میانمار، تھائی لینڈ جیسےبدھ مت کے ممالک اور چٹاگانگ جیسے علاقوں کے ساتھ ساتھ جاپان، کوریا، تبت، چین اور منگولیا میں بھی پالی زبان کا مطالعہ جاری ہے، جہاں بدھ مت کے ماننے والے بڑی تعداد میں بستے ہیں۔
- پالی کے ابتدائی حوالہ جات بدھ مت کے اسکالربدّھگوش کی تشریحات میں ملتے ہیں۔
پالی زبان کا ادبی سرمایہ
پالی مختلف بولیوں سے بنی ایک قدیم اور ثروت مند زبان ہے، جسے قدیم بھارت میں بدھ مت اور جین مت کے پیروکاروں نے اپنی مقدس زبان کے طور پر اختیار کیا۔تقریباً 500 قبل مسیح میں بھگوان بدھ نے اپنے خطبات اور تعلیمات کے لیے پالی زبان کا استعمال کیا، جس کی بدولت یہ زبان ان کی تعلیمات کے فروغ کا ایک اہم ذریعہ بن گئی۔بدھ مت کے تمام مستند مذہبی لٹریچر پالی میں تحریر کئے گے، خاص طور پر تری پٹک میں، جس کا مطلب ہے ‘‘تین ٹوکریاں’’ ۔
1. ونئے پٹک، بدھ بھکشوؤں کے لیے خانقاہی قوانین کی تفصیل بیان کرتی ہے، جو اخلاقی طرزِ عمل اور اجتماعی نظم کا خاکہ فراہم کرتی ہے۔
2. سُتّ پٹک— بدھ کے خطبات اور مکالمات پر مشتمل ہے، جو ان کے علم، حکمت اور فلسفیانہ بصیرت کو پیش کرتا ہے۔
3. ابھیدھم پٹک— اخلاقیات، نفسیات اور علم کے اصولوں سے متعلق مختلف موضوعات پر گہرے مباحث پیش کرتا ہے اور ذہن و حقیقت کا باریک مطالعہ کرتا ہے۔
پالی ادب میں جاتک کہانیاں بھی شامل ہیں جو بدھ کے سابقہ جنموں پر مبنی غیر مستند مگر اخلاقی نوعیت کی کہانیاں ہیں، جن میں وہ بودھی ستو یا آئندہ بدھ کے طور پر ظاہر ہوتے ہیں۔ یہ کہانیاں بھارتی مشترکہ وراثت سے جڑی ہوئی ہیں اور اخلاقی اقدار اور ثقافتی روایات کی عکاسی کرتی ہیں۔اسی کے ساتھ، یہ بھارتی فلسفہ اور روحانیت کے تحفظ میں پالی زبان کے اہم کردار کو بھی نمایاں کرتی ہیں۔
پراکرت
پراکرت ، جو قدیم و درمیانی ہند-آریائی زبانوں کے ایک گروہ کی نمائندگی کرتی ہے، بھارت کی لسانی اور ثقافتی وراثت کو سمجھنے کا ایک اہم اور لازمی جز ہے۔یہ صرف کئی جدید بھارتی زبانوں کی بنیاد ہی نہیں بلکہ ان متنوع روایات اور فلسفوں کو بھی سمیٹے ہوئے ہے جنہوں نے برصغیر کی تاریخی شناخت کو تشکیل دیا۔آدی شنکراچاریہ کے الفاظ میں:‘‘واچ پراکرت سنسکرو شروتی گرو’’— یعنی پراکرت اور سنسکرت دونوں ہی بھارتی علم و دانش کی حقیقی نقال اور محافظ ہیں۔
پراکرت زبان کا ادبی و علمی سرمایہ
لسانیات کے ماہرین اور محققین کے درمیان پراکرت کو وسیع سطح پر تسلیم شدہ زبان کا درجہ حاصل ہے۔ پاننی، چند، ورروچی اور سمنت بھدر جیسے آچاریہ نے اس کی نحوی و صرفی ساخت کو منظم کیا۔ مہاتما بدھ اور بھگوان مہاویر نے اپنے وعظ و تعلیمات کو عوام تک پہنچانے کے لیے پراکرت زبان کا استعمال کیا، جس سے یہ عوامی فہم اور مذہبی تبلیغ کی ایک مؤثر زبان بن گئی۔پراکرت کا اثر علاقائی ادب میں بھی گہرائی سے دکھائی دیتا ہے جہاں نجوم، ریاضی، ارضیات، کیمیا اور نباتیات جیسے علوم میں لکھی گئی نثری، شعری اور فلسفیانہ تصانیف پائی جاتی ہیں۔ پراکرت زبان بھارت کے لسانیات اور بولیوں کے مطالعے میں نہایت اہم ہے، کیونکہ اسی سے ہندی، بنگالی، مراتھی جیسی زبانوں نے جنم لیا۔یہ زبان پراکرت- اپبھرمش۔ جدید آریائی زبانوں کے ارتقائی سلسلے میں ایک اہم کڑی ہے۔یہی نہیں، ویدی زبان میں بھی پراکرت عناصر موجود ہیں، جو بھارت کے لسانی ارتقاء کو سمجھنے میں اس کے مطالعے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔پراکرت شیلا لیکھ بھارت کی تاریخ کے اہم ماخذ ہیں۔ موریہ قبل از دور کے کتبوں کے ساتھ ساتھ راجہ اشوک اور خاراویل کے کتبے بھی زیادہ تر پراکرت میں تحریر کیے گئے تھے، جو قدیم بھارت کی سیاسی، مذہبی اور سماجی زندگی کی جھلک پیش کرتے ہیں۔
- آچاریہ بھرت مونی نے اپنی مشہور تصنیف ’ناتیشاستر‘ میں پراکرت کو عام بھارتی عوام کی زبان قرار دیا ہے۔
- ایک ایسی زبان جو فنی اظہار، ثقافتی رنگا رنگی اور عوامی رسائی کے اعتبار سے بےحد دولت مند ہے۔
یہ تصور پراکرت کی سادگی، روانی اور عوامی مقبولیت کو ظاہر کرتا ہے اور اس کے ذریعے ہندی، بنگالی اور مراٹھی جیسی جدید زبانوں کے ارتقاء اور فہم کی بنیاد سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
آسامی
آسام کی سرکاری زبان آسامی کی جڑیں سنسکرت میں پیوست ہیں، جس کا ارتقاء ساتویں صدی قبل مسیح میں ہوا۔تاہم، اس کی براہِ راست اصل مگدھی اپبھرمش ہے، جو مشرقی پراکرت سے قریباً منسلک ایک قدیم بولی تھی۔لسانی ماہر جی۔ اے۔ گریئرسن نے لکھا ہے کہ مگدھی اس خطے کی اہم زبان تھی، جبکہ اس کی مشرقی شکل، یعنی پراچیہ اپبھرمش ، جنوب اور جنوب مشرقی علاقوں میں پھیلی اور رفتہ رفتہ جدید بنگالی میں تبدیل ہو گئی۔جب پراچیہ اپبھرمش کا پھیلاؤ مشرق کی طرف بڑھا تو یہ گنگا کے شمال کو عبور کر کے آسام کی وادی میں پہنچی، جہاں اس نے آسامی زبان کی شکل اختیار کی۔آسامیہ زبان کا سب سے قدیم حوالہ کَتھا گُروچرِت میں ملتا ہے۔لفظ ‘‘اکشومیا’’کے ماخذ کے بارے میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔کچھ ماہرین اسے جغرافیائی خصوصیات سے جوڑتے ہیں، جبکہ دیگر کے نزدیک یہ اہوم سلطنت سے ماخوذ ہے، جس نے اس خطے پر چھ صدیوں تک حکومت کی۔ مہابھارت میں برہم پتر وادی اور شمالی بنگال کو پراگجوتشپور کہا گیا ہے، جبکہ چوتھی صدی عیسوی کے سمدرگپت کے کتبے میں اسے کامروپ کہا گیا ہے۔انگریزی میں رائج لفظ “آسام” دراصل “اہوم” سے ماخوذ ہے، جو برہم پتر وادی کے لیے استعمال ہوتا تھا، اور اسی سے لفظ (آسامیہ) بنا، جو اس علاقے میں بولی جانے والی زبان کی نمائندگی کرتا ہے۔ آٹھویں صدی عیسوی تک، آسامیہ ایک مستقل زبان کے طور پر پختگی اختیار کر چکی تھی ۔آسامیہ، اڑیہ اور بنگالی کے ساتھ ایک مشترکہ لسانی وراثت رکھتی ہے، کیونکہ تینوں زبانیں مگدھی اپبھرمش سے ہی نکلی ہیں۔
آسامی زبان کا ادبی سرمایہ
- قبل از جدید دور کی آسامی رسم الخط کا سب سے پہلا نمونہ چریاپاد میں ملتا ہے ،یہ وہ قدیم بدھ مت تانترک نظمیں ہیں جو بدھ مت کے سِدّھ آچاریوں نے آٹھویں سے بارہویں صدی عیسوی کے درمیان تصنیف کیں۔
- چریاپاد کا آسامی اور دیگر مگدھی لسانی روایتوں سے گہرا تعلق ہے، جو کئی بھارتی زبانوں کے ارتقائی مراحل کو واضح کرتا ہے۔
- چریاپاد کے الفاظ میں ایسے لسانی عناصر شامل ہیں جو واضح طور پر آسامی سے مماثل ہیں۔
- آواز، ہجے اور صرفی ساخت کے لحاظ سے بھی ان میں وہی خصوصیات پائی جاتی ہیں جو آج کی جدید آسامی زبان میں موجود ہیں۔
بنگالی
بھارت کی سب سے نمایاں زبانوں میں سے ایک، بنگالی، برصغیر کی ثقافتی اور لسانی تاریخ میں ایک اہم مقام رکھتی ہے۔ بنگالی میں ایسے شاعر، ادیب اور دانشور پیدا ہوئے جنہوں نے نہ صرف بنگال کی ثقافتی شناخت کو بلکہ بھارت کی قومی شعور کو بھی تشکیل دیا۔ بنگالی کی ابتدائی تخلیقات دسویں سے بارہویں صدی عیسوی کے درمیان ملتی ہیں۔ سنسکرت کے مہاکویوں کے ابتدائی تراجم سے لے کر انیسویں اور بیسویں صدی کی انقلابی تحریروں تک، بنگالی ادب نے سماجی، سیاسی اور فکری تحریکوں کو مہمیز دینے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔
- بنگالی، آسامی اور اڑیہ کے ساتھ ساتھ مگدھی، مَیتھَلی اور بھوجپوری، مشرقی ہندوستان کے جنوبی۔مشرقی خطے میں ایک لسانی گروہ تشکیل دیتی ہیں۔ اس کا قریب ترین ماخذ مگدھی پراکرت (جسے مشرقی پراکرت بھی کہا جاتا ہے) ہے، جس کی ابتدا مگدھ (موجودہ بہار) کے علاقے سے ہوئی۔
- گَوڑ۔بنگ زبان، دیگر مشرقی زبانوں کے ساتھ، مگدھی اپبھرنش سے ارتقا پذیر ہوئی۔
- لسانی اعتبار سے، بنگالی ہند۔آریائی زبانوں سے ماخوذ ہے، جو ہند۔ایرانی شاخ کے اندر ہند ذیلی شاخ سے تعلق رکھتی ہیں، اور یہ سب ہند۔یورپی لسانی خاندان کے تحت آتی ہیں۔
بنگالی زبان کا ادبی ورثہ
قدیم بنگلہ کے سب سے پرانے دستیاب نمونے چاریا پد ہیں، جو بدھ بھکشوؤں نے تخلیق کیے۔ یہ 47 روحانی بھجن ہیں جنہیں بنگالی زبان و ادب دونوں کے لیے بے حد اہم سمجھا جاتا ہے۔ ان بھجنوں کے خالق بدھشٹ آچاریہ تھے، جن میں لوئیپا، بھُسُکُپا، کہنپا اور سورپّا جیسے نام نمایاں ہیں۔
ابتدائی بنگالی ادب کی بنیاد 10ویں سے 12ویں صدی کے درمیان رکھی گئی، جب سنسکرت کے عظیم رزمیہ شاعروں کے شاعری کا بنگالی میں ترجمہ کیا گیا۔ 16ویں صدی میں چیتنیہ نند کی قیادت میں مذہبی اصلاحات اور رگھوناتھ و رگھونندن کی سرپرستی میں پنّیت دھرم کے فروغ نے بنگالی ادب کی سمت بدل دی۔بعد کی صدیوں میں اصلی بنگالی تخلیقات سامنے آئیں، جن میں مکُند رام (جنہیں اکثر ‘‘بنگال کا چوسر’’ کہا جاتا ہے)، بھرت چندر اور رام پرساد جیسے ممتاز ادیبوں کے نام شامل ہیں۔
- 19ویں صدی بنگالی ادب کے لیے سنہری دور ثابت ہوئی۔ راجہ رام موہن رائے اور ایشور چندر وِدیاساگر جیسی شخصیات نے زبان اور اصلاحی تحریکوں میں گہرے اثرات چھوڑے۔
- اخبارات جیسے سمواد کومُدی، سوُم پرکاش اور وندے ماترم نے آزادی کی تحریک کے دوران عوامی بیداری میں زبردست کردار ادا کیا اور تحریری لفظ کی طاقت کو نمایاں کیا۔
- بنگالی نثر کی بنیاد بنوکم چندر چٹرجی نے رکھی، جب کہ رَبیندر ناتھ ٹیگور، مائیکل مدھوسودن دتّ، سُکنت بھٹاچاریہ اور قاضی نظرالاسلام جیسے شعرا نے ادب میں ایک انقلابی روح پیدا کی، جس نے آزادی کی جدوجہد کو نئی قوت دی۔
- نیتاجی سُبھاش چندر بوس کے نعرے ‘‘جے ہند!’’ اور بنوکم چندر چٹرجی کے ‘‘وندے ماترم’’ پورے ملک میں گونجتے رہے اور نسلوں کو حوصلہ بخشتے رہے۔
- ہمارا قومی ترانہ ‘‘جن گن من’’ ربیندرناتھ ٹیگور اور قومی گیت ‘‘وندے ماترم’’ بنکم چندر کے ذریعہ تحریر کردہ دونوں ہی بنگالی شعر و ادب کے تحفے ہیں۔
کلاسیکی زبانوں کے فروغ کے لیے کیے گئے اقدامات
کلاسیکی زبانوں سمیت تمام بھارتی زبانوں کے فروغ کا کام وزارتِ تعلیم کے زبان بیورو کے تحت آنے والے مرکزی ادارہ برائے بھارتی زبانیں (سی آئی آئی ایل) کے ذریعے انجام دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، کلاسیکی زبانوں کے مطالعے اور فروغ کے لیے یا تو آزاد ادارے قائم کیے گئے ہیں یا پھر انہیں سی آئی آئی ایل کے تحت خصوصی مراکز کی شکل میں منظم کیا گیا ہے۔
2020 میں، سنسکرت کے مطالعے کو فروغ دینے کے مقصد سے پارلیمنٹ کے ایک قانون کے تحت مرکزی سنسکرت یونیورسٹیاں- نئی دہلی میں شری لال بہادر شاستری نیشنل سنسکرت یونیورسٹی اورتروپتی میں نیشنل سنسکرت یونیورسٹی قائم کی گئیں۔اس کے علاوہ، آدرش سنسکرت مہاودیالیہ اور شودھ سنستھانوں کو مالی معاونت بھی فراہم کی جاتی ہے۔
قدیم تمل متون کے تراجم کی سہولت، تحقیق کے فروغ اور یونیورسٹی کے طلبہ و محققین کے لیےکلاسیکل تمل میں نصاب فراہم کرنے کے مقصد سے کلاسیکل تمل کا مرکزی ادارہ قائم کیا گیا ہے تاکہ کلاسیکل تمل ادب کو فروغ اور تحفظ دیا جا سکے۔
کلاسیکل زبانوں کے مطالعے اور ان کے تحفظ کو مزید تقویت دینے کے لیے، میسورو میں بھارتی زبانوں کا مرکزی ادارہ (سی آئی آئی ایل) کے تحت شاستریہ کنّڑ، تیلگو، ملیالم اور اڑیہ کے لیے بھی سینٹر آف ایکسلینس قائم کیے گئے ہیں۔
کلاسیکی زبانوں کے مراکز کی اہم سرگرمیاں اور مقاصد
• بھارت کی کلاسیکی زبانوں اور ادب کے فروغ، تشہیراور تحفظ کو یقینی بنانا۔
• تحقیقات اور دستاویزی کام کو منظم کرنا۔
• ریاستی عجائب گھروں اور آرکائیوز کی مدد سے قدیم مخطوطات کا ڈیجیٹائزیشن کرنا۔
• کتب، تحقیقی رپورٹس اور مخطوطات کی فہرستیں شائع کرنا۔
• کلاسیکی متون کا بھارتی اور غیر ملکی زبانوں میں ترجمہ ۔
• بصری و سمعی دستاویز سازی : ممتاز اسکالرس اور کلاسیکی متون پر دستاویزی فلموں کی تیاری۔
• کلاسیکی زبانوں کو آثارِ قدیمہ، اینتھروپولوجی (نَروِجنان)، نیومسماٹکس (سکہ شناسی) اور قدیم تاریخ سے جوڑنے والے مطالعات کو فروغ دینا۔
• کلاسیکی ورثے کو دیسی علمی نظاموں سے منسلک کرتے ہوئے علمی و فلسفیانہ کو بڑھاوا دینا۔
چنئی میں واقع کلاسیکی تمل کا مرکزی ادارہ تمل زبان کے کلاسیکی دورابتدائی عہد تا 600 عیسویپر وسیع پیمانے پر تحقیق کر رہا ہے۔اس میں تولکاپّیم (سب سے قدیم تمل صرف و نحو کی کتاب)، نترینئی، پورانانورو، کار ناراپّتو جیسے 41 قدیم تمل متون شامل ہیں۔یہ ادارہ تمل کی قدامت کے مطالعے کے لیے بین لسانی و بین علومی محققین کو شامل کر رہا ہے اور دراوِڑی تقابلی قواعد اور تمل بولیوں پر تحقیقی کام کر رہا ہے،عالمی سطح کی یونیورسٹیوں میں تمل چیئرز قائم کر رہا ہے،تحقیقی اداروں اور محققین کو قلیل مدتی تحقیقی منصوبوں کے لیے مالی امداد فراہم کر رہا ہے،اور ان سب کے ذریعے تمل کی علمی و ثقافتی میراث کو زندہ رکھنے کے لیے سرگرم ہے۔
یہ مرکز قدیم تمل متون کا متعدد بھارتی اور غیر ملکی زبانوں میں ترجمہ بھی کر رہا ہے۔ اس منصوبے کے تحت تروکّرل کا ترجمہ 28 بھارتی اور 30 سے زائد عالمی زبانوں میں، نیز بریل میں بھی کیا گیا ہے۔ مرکز کلاسیکی تمل کے متون کو بریل رسم الخط میں شائع کر رہا ہے اور ایک کلاسیکی تمل لغت بھی مرتب کر رہا ہے۔
کلاسیکی تیلگو میں مطالعہ کیلئے عمدگی کا مرکز(سی ای ایس سی ٹی)، سی آئی آئی ایل کے تحت قائم کیا گیا ہےاور یہ وینکٹاچلم، ایس پی ایس آر نیلور (آندھرا پردیش) کے کیمپس سے کام کرتا ہے۔ سی ای ایس سی ٹی نے تقریباً 10,000 کلاسیکی رزمیہ پر مشتمل ایک جامع ڈیٹا بیس تیار کیا ہے، جس میں ڈرامے، آندھرا اور تلنگانہ کے مندروں اور دیہاتوں کے کتبے و ریکارڈ شامل ہیں۔تمام تیلگو کتبوں کو مدون کر کے ‘‘تیلگو شاسنالو’’ کے عنوان سے ایک کتاب میں شائع کیا گیا ہے۔پہلا تیلگو گرامر‘‘آندھرا شبدا چنتامنی’’اور اولین عروضی تصنیف ‘‘کوی جنشرمم’’ کا انگریزی میں ترجمہ کیا گیا ہے۔
کلاسیکی کنّڑ میں مطالعہ کیلئے عمدگی کامرکز(سی ای ایس سی کے) بھی سی آئی آئی ایل کے تحت قائم ہے، جو میسورو یونیورسٹی کیمپس میں واقع ہے۔ اس میں ایک مخصوص لائبریری، کلچرل تجربہ گاہ اور جدید کانفرنس سہولیات موجود ہیں۔یہ مرکز اپنے تربیتی پروگراموں کے ذریعے روڈ میپ میٹنگز اور شاستریہ کنّڑ کے فروغ جیسے اقدامات کر رہا ہے۔مرکز چار بنیادی میدانوں میں کام کرتا ہے: تحقیق، تدریس، دستاویزی عمل اور اشاعت۔اس نے 7 کتابیں شائع کی ہیں جبکہ 22 دیگر کتابیں اشاعت کے مرحلے میں ہیں۔شاعر۔صوفی انّامآچاریا کی پہلی موسیقی تخلیق ‘‘سانکیرتن لکشَنم’’جو اصل میں سنسکرت میں تھی کا کنّڑ میں ترجمہ کیا گیا ہے۔
کلاسیکی اڑیہ میں مطالعات کیلئے عمدگی کامرکز(سی ای ایس سی او)،سی آئی آئی ایل کے تحت بھوبنیشور کے مشرقی علاقائی زبان مرکز میں قائم ہے۔یہ مرکز شاستریہ زبانوں اور ادب کے تحفظ، فروغ، تحقیق اور دستاویزی کام کو آگے بڑھاتا ہے۔اس نے اڑیہ جیسی زبانوں کے ماخذات پر مبنی منصوبے شروع کیے ہیں، جن میں کتبوں کا تجزیہ، دیواروں پر نقوش کا لسانی مطالعہ، آثارِ قدیمہ کی دستاویز بندی، قدیم مخطوطات اور روایتی متون سے حوالہ جات جمع کرنا شامل ہے۔
کلاسیکی ملیالم میں مطالعات کیلئے عمدگی کامرکز(سی ای ایس سی ایم)، بھی سی آئی آئی ایل کے تحت قائم ہے اور یہ تھنچت ایژتھچن ملیالم یونیورسٹی، تِرور ملا پورم، کیرالہ میں ریاستی حکومت کے تعاون سے کام کر رہا ہے۔
نتیجہ
‘‘وراثت بھی، ترقی بھی’’ — بھارت کے وزیرِ اعظم کا یہ متاثرکن منتر، ملک کی شاندار تہذیبی وراثت کو ترقی و جدیدیت کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے جذبے کی عکاسی کرتا ہے۔ہندوستان کی کلاسیکی زبانیں — سنسکرت، تمل، تیلگو، کنّڑ، ملیالم اور اڑیہ ، اسی فکر کی جیتی جاگتی مثالیں ہیں، جو ہماری تہذیب کے فکری اور ثقافتی خزانے کو دنیا کے سامنے پیش کرتی ہیں۔اسی طرح، مراٹھی، پالی، پراکرت، آسامی اور بنگالی کو شاستریہ زبانوں کا درجہ دینے کا سرکاری فیصلہ، ہندوستان کی علمی و فکری وراثت کی تشکیل میں ان زبانوں کے بیش بہا کردار کا اعتراف ہے۔حکومت کے ان اقدامات نے اداروں، محققین اور نوجوان نسل کو اپنی قدیم روایات سے منسلک ہونے کا موقع فراہم کیا ہے۔ان زبانوں کو آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ رکھ کر ، وزیرِ اعظم نریندر مودی آتم نربھر بھارت کے نظریے کے مطابق، ثقافتی خود انحصاری اور قومی یکجہتی کے ایک جامع وژن کو مضبوط کر رہے ہیں۔ان کی قیادت اور وابستگی کے نتیجے میں، ہندوستان کی تاریخی آوازیں آج کے جدید، پُراعتماد بھارت میں گونج رہی ہیں۔
حوالہ جات
پی ایم او انڈیا
https://www.pmindia.gov.in/en/news_updates/highlights-from-the-pms-address-on-the-79th-independence-day/
https://www.pmindia.gov.in/en/news_updates/cabinet-approves-conferring-status-of-classical-language-to-marathi-pali-prakrit-assamese-and-bengali-languages/
وزارت ثقافت، حکومت ہند
https://www.indiaculture.gov.in/
وزارت تعلیم، حکومت ہند
https://ccrtindia.gov.in/resources/literary-arts/
https://www.slbsrsv.ac.in/faculties-and-departments/faculty-sahitya-and-sanskriti/department-prakrit
پریس انفارمیشن بیورو
https://www.pib.gov.in/newsite/PrintRelease.aspx?relid=103014
https://www.pib.gov.in/FeaturesDeatils.aspx?NoteId=153317&ModuleId+=+2
https://www.pib.gov.in/FeaturesDeatils.aspx?NoteId=153318&ModuleId%20=%202
https://www.pib.gov.in/FeaturesDeatils.aspx?NoteId=153320&ModuleId=2
https://www.pib.gov.in/FeaturesDeatils.aspx?NoteId=153322&ModuleId%20=%202
https://www.pib.gov.in/FeaturesDeatils.aspx?NoteId=153315&ModuleId+=+2#_ftn1
https://www.pib.gov.in/PressReleasePage.aspx?PRID=2061660
پی ڈی ایف دیکھنے کیلئے یہاں کلک کریں۔
ش ح- ع ح – ع ر
UR No. 326
(Backgrounder ID: 155740)
Visitor Counter : 2
Provide suggestions / comments
Read this release in:
Urdu