Social Welfare
ایک خاموش انقلاب: ایک حفاظتی ڈھال کی فراہمی
سماجی تحفظ کے کوریج کا دائرہ 19 فیصد سے بڑھ کر 64.3 فیصد ہو گیا ہے، اب 94 کروڑ سے زائد افراد سماجی تحفظ کے دائرے میں شامل ہیں
Posted On: 28 JUN 2025 1:12PM

تعارف
ہندوستان نے سماجی تحفظ (سوشل سیکورٹی) کے احاطے میں غیر معمولی اضافہ ریکارڈ کیا ہے، جو 2015 میں 19 فیصد تھی اور 2025 میں بڑھ کر 64.3 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اب ہندوستان کی 64.3 فیصد آبادی،یعنی تقریباً 94.3 کروڑ افراد کم از کم ایک سماجی تحفظ کے کوریج کے دائرے میں آ چکے ہیں۔اس بے مثال اضافے کو بین الاقوامی ادارہ محنت(آئی ایل او) نے بھی اپنےآئی ایل او ایس ٹی اے ٹی ڈیٹا بیس میں تسلیم کیا ہے۔ 10سالوں میں 45 فیصد پوائنٹس کا یہ اضافہ دنیا بھر میں سماجی تحفظ کے دائرہ کار میں سب سے بڑے اضافے میں سے ایک ہے۔ مستفید ہونے والے افراد کی تعداد کے لحاظ سے ہندوستان اب چین کے بعد دنیا میں دوسرا بڑا ملک بن گیا ہے جو اپنے شہریوں کو سماجی تحفظ فراہم کر رہا ہے۔

سماجی تحفظ کے تئیں سمجھ
بین الاقوامی محنت تنظیم (آئی ایل او) کے مطابق، سماجی تحفظ وہ حفاظتی نظام ہے جو معاشرہ افراد اور خاندانوں کو صحت کی دیکھ بھال تک رسائی کو یقینی بنانے اور آمدنی کے تحفظ کی ضمانت دینے کے لیے فراہم کرتا ہے۔ یہ نظام خاص طور پر بڑھاپے، بیماری، بے روزگاری، معذوری، زچگی، کام کی جگہ پر چوٹ لگنے یا کمانے والے فرد کے انتقال جیسے حالات میں نہایت اہم ہو جاتا ہے۔ بین الاقوامی محنت تنظیم کے کنونشنز اور اقوام متحدہ کے دستاویزات میں سماجی تحفظ کو ایک بنیادی انسانی حق کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔۔ [1]
ہندوستان میں سماجی تحفظ کا ایک وسیع نظام ہے، جس میں مرکزی اور ریاستی دونوں سطحوں پر سماجی بیمہ اور سماجی امداد کی اسکیمیں شامل ہیں ۔ ان میں فلاحی ادائیگیاں ، آجر اور ملازم کے تعاون کے ساتھ لازمی سماجی بیمہ اور آجر پر مبنی دیگر فوائد شامل ہیں ۔ ان کے علاوہ ، خوراک ، صحت ، پناہ گاہوں کی حفاظت وغیرہ جیسے قسم کے فوائد فراہم کرنے والی اسکیمیں بھی دستیاب ہیں۔

ہندوستان میں سماجی تحفظ کےکوریج کی جامع صورتحال دریافت کرنے کے لیے وزارت محنت و روزگار بین الاقوامی محنت تنظیم(آئی ایل او) کے ساتھ مل کر نیشنل سوشل سیکورٹی ڈیٹا پولنگ پریکٹس پر کام کر رہی ہے۔ اس منصوبے کے تحت مخصوص مستفیدین کی شناخت کے لیے منریگا، ای پی ایف او، ای ایس آئی سی، اٹل پینشن یوجنا(اے پی آئی)، اور پی ایم-پوشن جیسی 34 بڑی مرکزی اسکیموں میں ایک منفرد شناخت کار کے طور پر انکرپٹڈ آدھار کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ڈاٹا جمع کرنے کا پہلا مرحلہ 19 مارچ 2025 کو شروع ہوا، جس میں 10 ریاستیں اتر پردیش، راجستھان، مہاراشٹرا، مدھیہ پردیش، تمل ناڈو، اوڈیشہ، آندھرا پردیش، تلنگانہ، کرناٹک اور گجرات شامل ہیں۔ڈیٹا اکٹھا کرنے کا یہ عمل نہ صرف سماجی تحفظ کے شعبے میں ہندوستان کی عالمی ساکھ کو مزید مستحکم کرے گا، بلکہ مرکزی حکومت، ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو فلاحی اخراجات کے بہتر انتظام اور سماجی تحفظ کی پائیدار مالی معاونت کے لیے پیش رفت میں مدد فراہم کرے گا۔ یہ ریاستوں کو ریاستی سطح کی سماجی تحفظ اسکیموں کے تحت مخصوص مستفیدین کی شناخت میں بھی مددفراہم کرے گا۔
جب کسی ملک میں سماجی تحفظ کی کوریج کا جائزہ لیا جاتا ہے تو بین الاقوامی محنت تنظیم( آئی ایل او) صرف ان اسکیموں کو شمار کرتی ہے جو قانونی طور پر منظور شدہ ہوں، نقد ادائیگی پر مبنی اور فعال ہوں اس کے ساتھ ہی جن کے گزشتہ تین سالوں کے تصدیق شدہ سلسلہ وار اعداد و شمار فراہم کیے گئے ہوں۔ موجودہ اعداد و شمار صرف ڈیٹا جمع کرنے کے عمل کےقبل کےمرحلے کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس مرحلے میں منتخب 8 ریاستوں میں مرکزی شعبے کی اسکیموں اور خواتین پر مرکوز اسکیموں کے مستفیدین کے ڈیٹا پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔
دوسرے مرحلے میں مزید انضمام کے عمل کے ساتھ توقع کی جارہی ہے کہ جب آئی ایل او اضافی اسکیموں کی توثیق کرے گا ہندوستان کی مجموعی سماجی تحفظ کا کوریج جلد ہی 100 کروڑ کا ہندسہ عبور کر جائے گا۔ اس کے علاوہ اگرچہ آئی ایل او کا ڈیٹابیس صرف نقد امداد پر مبنی اسکیموں کو شمار کرتا ہے، لیکن لاکھوں افراد ایسے بھی ہیں، جو مختلف غذائی اور صحت کے تحفظ سے متعلق اسکیموں کے ذریعے غیر نقد امداد حاصل کر رہے ہیں۔
ہندوستان آئی ایل او ایس ٹی اے ٹی ڈیٹابیس میں اپنے 2025 کے سماجی تحفظ کے ڈیٹا کو اپ ڈیٹ کرنے والا پہلا ملک بھی بن گیا ہے۔ یہ ہندوستان کی ڈیجیٹل حکمرانی میں قیادت اور شفاف و جامع فلاحی نظام کے قیام کے عزم کو پیش کرتا ہے۔
سماجی تحفظ کے احاطہ میں اضافہ ہندوستان کی عالمی سطح پر شراکت داری کو مضبوط کرے گا، خاص طور پر ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ سماجی تحفظ کے معاہدوں(ایس ایس اے ایز) کو حتمی شکل دینے میں اہم ہوگا۔ یہ معاہدے بیرونِ ملک کام کرنے والے ہندوستانی پیشہ ور افراد کے لیے سماجی تحفظ کے فوائد کی منتقلی کو یقینی بنائیں گے، جبکہ شراکت دار ممالک کو باہمی شناخت کے فریم ورک کے لیے درکار شفافیت فراہم کریں گے۔ اس سے ہندوستان کی پوزیشن تجارت اور مزدوروں کی نقل و حرکت سے متعلق عالمی مذاکرات میں مزید مضبوط ہوگی، کیونکہ یہ ایک قابل اعتماد اور مضبوط سماجی تحفظ کے نظام کو پیش کرتا ہے۔
توسیع کے لیے ایک بہتر ماحول پیدا کرنا
سماجی تحفظ کی اس وسیع پیمانے پر توسیع کو مودی حکومت کی گزشتہ 11 سالوں میں غریبوں اور مزدوروں کی فلاح و بہبود کے لیےشروع کی گئی اسکیموں اور ایک جامع و حقوق پر مبنی سماجی تحفظ کے نظام کی تشکیل پر توجہ کا نتیجہ سمجھا جا سکتا ہے۔ حکومت نے اس قسم کی توسیع کو ممکن بنانے کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں:
قوانین کو آسان بنانا
ہندوستان میں 50 کروڑ سے زیادہ کارکن ہیں ، جن میں سے تقریبا 90 فیصد غیر منظم شعبے میں ہیں ۔ملک میں سماجی تحفظ کا نظام قوانین کی پیچیدگیوں سے بھرا ہوا تھا اور غیر منظم شعبے کے مزدوروں کو سماجی تحفظ دستیاب نہیں تھا۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے موجودہ حکومت نے قوانین کو آسان بنانے اور غیر منظم شعبے کو سماجی تحفظ کے دائرے میں لانے کی پہل کی ہے۔
مزدوروں سے متعلق 29قوانین کو اب 4 لیبر کوڈز میں تبدیل کر دیا گیا ہے
- مزدوروں کے کم از کم اجرت کے حق کو یقینی بنانے کے لیے 4 قوانین کے انضمام کے ساتھ اجرت کا ضابطہ۔
- غیر منظم شعبے سمیت تمام کارکنوں کے لیے سماجی تحفظ کےکوریج کو یقینی بنانے کے لیے 9 قوانین کے انضمام کے ساتھ سماجی تحفظ ضابطہ 2020۔
- تمام حالات میں کارکنوں کو تحفظ کا حق فراہم کرنے کے لیے 13 قوانین (2020 کے) کے انضمام کے ساتھ پیشہ ورانہ حفاظت ، صحت اور کام کرنے کے حالات کا ضابطہ ۔
- ٹریڈیونینوں کے ساتھ ساتھ کارکنوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے 3 لیبر قوانین کے انضمام کے ساتھ صنعتی تعلقات کا ضابطہ ۔
سوشل سیکورٹی کوڈ ، 2020 ؛ نیو انڈیا کے لیے نیا لیبر کوڈ
تمام کارکنوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے مرکزی حکومت نےمزدوروں سے متلعق 9قوانین کو یکجا کرکے ‘‘سوشل سیکوری کوڈ’’ تشکیل دیا ہے تاکہ کارکنوں کو انشورنس، پنشن، گریجویٹی، زچگی فوائد وغیرہ کے حقوق فراہم کیے جا سکیں۔ اس کوڈ کے تحت سوشل سیکورٹی کے لیے ایک جامع قانونی ڈھانچے کی تشکیل کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس کے تحت، آجر اور کارکن کی جانب سے دی جانے والی شراکت کے لیے ایک منظم نظام قائم کیا جائے گا۔ حکومت پسماندہ طبقے سے تعلق رکھنے والے کارکنوں کی شراکت کو مالی امداد فراہم کر سکتی ہے۔
کوڈ تمام کارکنوں کو درج ذیل فوائد فراہم کرتا ہے:
- ایک چھوٹے سے حصہ کے ذریعے ای ایس آئی سی کے اسپتالوں اور ڈسپنسریوں میں مفت علاج کاکی سہولت دستیاب۔
- ای ایس آئی سی اب غیر منظم شعبے کے کارکنوں کے ساتھ ساتھ تمام شعبوں کے کارکنوں کے لیے کھلا رہے گا ۔
- ضلعی سطح تک ای ایس آئی سی اسپتالوں ، ڈسپنسریوں اور شاخوں کی توسیع ۔ یہ سہولت 566 اضلاع سے بڑھا کر ملک کے تمام 740 اضلاع تک پہنچائی جائے گی ۔
- اگر ایک بھی کارکن خطرناک کام میں مصروف ہو تو اسے ای ایس آئی سی کا فائدہ فراہم کیا جائے گا۔
- ای ایس آئی سی پلیٹ فارم اور نئی ٹیکنالوجی میں مصروف کارکنوں میں شامل ہونے کا موقع ۔
- شجرکاری کے کارکنوں کو ای ایس آئی سی کا فائدہ ملے گا ۔
- خطرے والےشعبے میں کام کرنے والے اداروں کو لازمی طور پر ای ایس آئی سی کے ساتھ رجسٹر کرنا۔
- منظم ، غیر منظم اور خود روزگار کے شعبوں کے تمام کارکنوں کو پنشن اسکیم (ای پی ایف او) کا فائدہ ۔
- غیر منظم شعبے کو جامع سماجی تحفظ فراہم کرنے کے لیے سماجی تحفظ فنڈ کی تشکیل ۔
- مقررہ مدت کے ملازمین کے معاملے میں گریچوئٹی کی ادائیگی کے لیے کم از کم سروس کی ضرورت کو ختم کر دیا گیا ہے ۔
- مقررہ مدت کے تحت کام کرنے والے ملازمین کو مستقل ملازمین کے برابر سماجی تحفظ کے فوائد حاصل ہوں گے۔
- پورٹل پر رجسٹریشن کے ذریعے غیر منظم شعبے کے کارکنوں کا قومی ڈیٹا بیس تیار کرنا۔
- 20سے زیادہ کارکنوں کو ملازمت دینے والے آجروں کو لازمی طور پر خالی آسامیوں کی اطلاع آن لائن دینی ہوگی ۔
- ای ایس آئی سی ، ای پی ایف او اور غیر منظم شعبے کے کارکنوں کے لیے ایک یونیورسل اکاؤنٹ نمبر (یو اے این) ۔
- آدھار پر مبنی یونیورسل اکاؤنٹ نمبر(یو اے این) تاکہ بآسانی منتقلی کو یقینی بنایا جا سکے۔
ڈیجیٹل اور مالیاتی بنیادوں کی تعمیر
جن دھن یوجنا: مالی شمولیت ہندوستان کے سماجی تحفظ کے مرکز میں رہی ہے۔ 18 جون 2025 تک 55.64 کروڑ سے زائد افراد کے پاس جن دھن کھاتے موجود ہیں، جس کے ذریعے انہیں سرکاری فوائد اور رسمی بینکنگ خدمات تک براہ راست رسائی حاصل ہو رہی ہے۔ [2]
آدھار اور ڈیجیٹل شناخت: آدھار پروگرام نے ایک منفرد ڈیجیٹل شناختی نظام بنانے میں مدد کی ہے ۔ 27 جون 2025 تک 142 کروڑ سے زیادہ آدھار کارڈ جاری کیے جا چکے ہیں ۔ [3] یہ نظام صحیح وقت پر صحیح شخص کو فوائد کی تصدیق اور فراہمی کی حمایت کرتا ہے ۔
براہ راست فوائد کی منتقلی (ڈی بی ٹی):ڈی بی ٹی نظام نے فلاحی ادائیگیوں کی راہ کو ہموار کیا ہے ، جس سے لکیج اور تاخیر کو کم کیا گیا ہے ۔ مارچ 2023 تک مجموعی بچت 3.48 لاکھ کروڑ روپے تک پہنچ گئی ہے ، جو اس کی کارکردگی اور پیمانے کی عکاسی کرتی ہے ۔ [4]
ڈیجیٹل کنیکٹیویٹی اور 5 جی انفراسٹرکچر: 2025 تک 5 جی خدمات ملک کے 99.6 فیصد اضلاع تک پہنچ چکی ہیں ۔ صرف 24-2023میں تقریباً تین لاکھ بیس اسٹیشنوں کے اضافے کے ساتھ ڈیجیٹل خدمات تیز تر اور زیادہ قابل رسائی ہو گئی ہیں ۔ ڈیٹا کی لاگت 2014 میں 308 روپے فی جی بی سے کم ہو کر 2022 میں 9.34 روپے ہو گئی ہے جس نے ڈیجیٹل شمولیت کو عوام کے لیے سستی بنا دیا ہے ۔ [5]
حکومت کے سماجی تحفظ کے کلیدی پروگرام
انشورنس اور پنشن اسکیمیں
پردھان منتری سرکشا بیمہ یوجنا (پی ایم ایس بی وائی ):یہ اسکیم سستی حادثاتی بیمہ فراہم کرتی ہے اور کم آمدنی والے افراد کو بنیادی تحفظ فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ مئی 2025 تک اس اسکیم کے تحت ملک بھر میں 51.06 کروڑ افراد کو شامل کیا جا چکا ہے۔
پردھان منتری جیون جیوتی بیمہ یوجنا(پی ایم جے جے بی وائی ):یہ ایک سال کے لیے قابل تجدید زندگی کا بیمہ(لائف انشورنس) ہے، جو2 لاکھ روپے کاتحفظ صرف436 روپے سالانہ پریمیم پر فراہم کرتا ہے۔ مئی 2025 تک اس اسکیم کے تحت 23.64 کروڑ افراد کا احاطہ کیا جا چکا ہے۔
پردھان منتری شرم یوگی مان دھن یوجنا (پی ایم – ایس وائی ایم ):یہ اسکیم غیر منظم شعبے کے کارکنوں کو 60 سال کی عمر کے بعد ماہانہ3,000؍روپے پنشن کی ضمانت دیتی ہے۔ یہ رضاکارانہ اور شراکت پر مبنی اسکیم ہے۔ 29 مئی 2025 تک 51.35 لاکھ کارکنان اس اسکیم کے تحت رجسٹر ہو چکے ہیں۔
ایمپلائز پروویڈنٹ فنڈ آرگنائزیشن(ای پی ایف او ): یہ اسکیم رسمی روزگار، محفوظ آمدنی اور مستقبل کی بچت کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ صرف 25-2024 میں ای پی ایف او(ای پی ایف او) کے نظام میں 1.29 کروڑ افراد کا اضافہ ہوا ہے۔ اپریل 2025 میں 19.14 لاکھ نئے اندراجات ہوئے ہیں۔
ایمپلائز اسٹیٹ انشورنس کارپوریشن (ای ایس آئی سی ):ای ایس آئی سی رسمی شعبے کے کارکنوں کے لیے ایک وسیع سماجی تحفظ کا نیٹ ورک فراہم کرتی ہے۔ اس میں طبی سہولیات، بیماری کے دوران مالی مدد اور بیروزگاری الاؤنس شامل ہے۔ یہ اسکیم ہندوستان میں مزدوروں کی فلاح و بہبود کا ایک مضبوط ستون بنی ہوئی ہے۔
خواتین اور گھریلو افراد کو بااختیار بنانا
لک پتی دیدی پہل:اپنی مدد آپ گروپ کی خواتین کی آمدنی میں اضافے کے لیے یہ پروگرام متنوع روزگار کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ اب 10 کروڑ سے زائد خواتین اپنی مدد آپ گروپ( سیلف ہیلپ گروپس)سے وابستہ ہیں۔ حکومت نے ان میں سے 3 کروڑ خواتین کو‘لک پتی دیدی’ بنانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔
پردھان منتری اُجوالا یوجنا:یہ اسکیم غریب گھرانوں کی خواتین کو مفت ایل پی جی کنکشن فراہم کرتی ہے۔ اس نے صاف ایندھن کے ذریعے صحت اور وقار کو بہتر بنایا ہے۔ 2025 تک 10.33 کروڑ سے زائد کنکشن فراہم کیے جا چکے ہیں۔
ایک اپنا گھر: سب کے لیے رہائش: دیہی اور شہری ہندوستان کے بہت سے خاندانوں کے لیے ایک مستقل مکان کبھی ایک ناقابل حصول خواب تھا ۔ پردھان منتری آواس یوجنا (پی ایم اے وائی) نے اس بیانیے کو بدل دیا ۔ پی ایم اے وائی کے دو اجزاء ہیں: اربن اور گرامین ۔ پی ایم اے وائی کے تحت تقریباً 4 کروڑ مکانات تعمیر ہو چکے ہیں ۔ پی ایم اے وائی-اربن(شہری) کے تحت، 92.72 لاکھ سے زیادہ مکانات فراہم کرائے گئے ہیں ، جن میں 90 لاکھ سے زیادہ مکانات خواتین کی ملکیت میں ہیں ۔
دیہی ہندوستان میں پی ایم اے وائی-گرامین کے تحت 2.77 کروڑ مکانات مکمل ہو چکے ہیں ۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان میں سے 60؍فیصد مکانات ایس سی اور ایس ٹی کو مختص کیے گئے ہیں اور 25.29؍فیصد خواتین کے نام پر رجسٹرڈ ہیں ، جس سے صنفی مساوات کو فروغ ملتا ہے ۔
غیر رسمی اور غیر منظم کارکنوں کو تحفظ
ای-شرم پورٹل:2021میں شروع ہونے والے اس پورٹل پر 27 جون 2025 تک 30.91 کروڑ غیر منظم کارکن رجسٹر ہو چکے ہیں۔[8] ہر کارکن کو ایک یونیورسل اکاؤنٹ (یو اے این)نمبر دیا جاتا ہے تاکہ وہ سماجی تحفظ کی سہولیات حاصل کر سکے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ رجسٹرڈ افراد میں 53.77؍فیصد خواتین ہیں، جو اس اسکیم کی شمولیتی رسائی کو ظاہر کرتا ہے۔
اٹل پنشن یوجنا (اے پی وائی ):اے پی وائی کا مقصد غیر رسمی مزدوروں کو پنشن کی سہولت فراہم کرنا ہے۔ دسمبر 2024 تک اس کے 7.25 کروڑ صارفین ہیں اور اس کامجموعی فنڈ 43,370 کروڑ روپے ہے۔ اس کے ساتھ دو تکمیلی بیمہ اسکیمیں بھی ہیں: پردھان منتری جیون جیوتی بیمہ یوجنا اور پردھان منتری سرکشا بیمہ یوجنا، جو کم لاگت پر زندگی اور حادثاتی بیمہ فراہم کرتی ہیں۔
پردھان منتری وشوکرما یوجنا:یہ اسکیم روایتی ہنر مند کاریگروں کو بغیر ضمانت کےقرض، اوزار، ڈیجیٹل سہولیات اور مارکیٹنگ کی مدد فراہم کرتی ہے۔ 9 جون 2025 تک 23.7 لاکھ کاریگر رجسٹر ہو چکے ہیں اور 2025 تک تقریباً 10 لاکھ کاریگروں کو کو اوزاروں کی ترغیب (Toolkit Incentive) )مل چکی ہے۔
صحت اور خوراک کے تحفظ میں اضافہ:
آیوشمان بھارت:27جون 2025 تک 41.29 کروڑ سے زائد آیوشمان کارڈز جاری کیے جا چکے ہیں۔ یہ اسکیم ہر خاندان کو سالانہ5 لاکھ روپے کا ہیلتھ انشورنس(صحت کا بیمہ) فراہم کرتی ہے، جو ملک بھر کے 32,000 سے زائد منظور شدہ اسپتالوں میں قابل قبول ہے۔حکومت نے 70 سال یا اس سے زائد عمر کے تمام شہریوں کے لیے آمدنی کی پرواہ کیے بغیر، آیوشمان وایا وندنا یوجنا کا آغاز بھی کیا ہے۔اس کے ساتھ آیوشمان بھارت ڈیجیٹل مشن کے تحت 77 کروڑ سے زائد آیوشمان بھارت ہیلتھ اکاؤنٹس بنائے گئے ہیں، جو شہریوں کو مربوط طبی خدمات سے جوڑتے ہیں۔
پردھان منتری غریب کلیان انا یوجنا (پی ایم جی کے اے وائی): وبا کے دوران شروع کی گئی اس اسکیم نے کمزوروںطبقہ کے لیے غذائی تحفظ کو یقینی بنایا ہے ۔ دسمبر 2024 تک یہ 80.67 کروڑ لوگوں تک پہنچ چکا ہے ، انہیں مفت اناج فراہم کیا جا رہا ہے ۔ [10]
ٹرانسجینڈرز اور معذور افراد کے لیے وقار اور تحفظ:
معذور افراد کے لیے معاون آلات / سہارا دینے والے آلات کی خریداری / فٹنگ کے لیے امدادی اسکیم (اے ڈی آئی پی):
اے ڈی آئی پی اسکیم کے تحت، معذور افراد میں معاون آلات کی تقسیم کے لیے مختلف عملدرآمد کرنے والی ایجنسیوں کو فنڈز جاری کیے جاتے ہیں تاکہ ان کی جسمانی، سماجی اور نفسیاتی بحالی کو فروغ دیا جا سکے اور ان کی معاشی صلاحیت کو بڑھایا جا سکے۔
اس اسکیم کے تحت گزشتہ 11 سالوں کے دوران 31.16 لاکھ معذور افراد کو 2415.85 کروڑ روپے کی لاگت سے معاون آلات اور امدادی سامان فراہم کرائے گئے۔
گزشتہ 11 برسوں کے دوران اس اسکیم کے تحت اہم حصولیابیاں مندرجہ ذیل ہیں:
اے آئی ڈی پی کیمپوں کے انعقاد کے دوران 10 گنیز ورلڈ ریکارڈ بنائے گئے ۔
2014سے اب تک 18,000 سے زیادہ کیمپ لگائے گئے ہیں ، جس سے 31 لاکھ سے زیادہ معذور افراد کو بااختیار بنایا گیا ہے ۔
معذور افراد کو فائدہ پہنچانے کے لیے تسلیم شدہ معذوریوں کی تعداد 7 سے بڑھا کر 21 کر دی گئی ہے۔
ٹرانس جینڈر افراد کے لیے اسکیمیں:
حکومت نے 12 فروری 2022 کو ایک اسکیم اسمائل(ایس ایم آئی ایل ای) محروم افراد کے لیے روزگار اور کاروبار کرنے میں مدد کے لیےشروع کی ہے، جس میں ذیلی اسکیم ‘ٹرانسجینڈر افراد کی فلاح و بہبود کے لیے جامع بحالی’(‘Comprehensive Rehabilitation for Welfare of Transgender Persons’) شامل ہے۔
اس سلسلے میں وزارت برائے سماجی انصاف وتفویض اختیارات نے 12 پائلٹ شیلٹر ہومز کا آغاز کیا ہے جنہیں ’گرما گریہہ‘ ٹرانسجینڈر افراد کے لیے شیلٹر ہوم’ کہا جاتا ہے۔ ان شیلٹر ہومز کا بنیادی مقصد ضرورت مند ٹرانسجینڈر افراد کو محفوظ اور سکیور پناہ فراہم کرنا ہے۔اختتامیہ
نتیجہ:
ہندوستان کا دس برسوں میں 19 فیصد سے بڑھ کر 64.3 فیصد سماجی تحفظ تک رسائی حاصل کرنا نہ صرف پیمانے بلکہ نیت کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ جب پالیسی، ٹیکنالوجی اور سیاسی ارادہ مل کر عوام کی خدمت کے لیے کام کرتے ہیں تو کیا کچھ ممکن ہوتاہے۔ اب 94 کروڑ سے زائد افراد کم از کم ایک اسکیم کے تحت محفوظ ہیں اور ملک نے جامع فلاح و بہبود کی طرف ایک مضبوط قدم اٹھایا ہے۔
جیسے جیسے مزید اسکیموںکی تصدیق کی جائے گی اور انہیں شامل کیا جائے گا، اس کوریج کے مزید بڑھنے کا امید ہے۔ ہندوستانی قیادت ڈیجیٹل آلات، براہِ راست فائدے کی منتقلی اور ہدف شدہ پروگراموں کے استعمال میں ایک عالمی مثال قائم کر چکی ہے۔ گزشتہ دہائی میں حاصل کی گئی رفتار کو برقرار رکھنا ضروری ہے تاکہ ہر شہری خاص طور پر سب سے زیادہ کمزور افراد کو ضرورت کے وقت تحفظ فراہم کیا جا سکے۔
حوالہ جات:
محنت اور روزگار کی وزارت:
انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن:
https://www.social-protection.org/gimi/ShowCountryProfile.action?iso=IN
پی آئی بی پس منظر:
Kindly fnd the pdf file.
*****
) ش ح –م ع ن- ش ب ن )
U.No. 2368
(Backgrounder ID: 154802)
Visitor Counter : 93