• Skip to Content
  • Sitemap
  • Advance Search
Farmer's Welfare

ہندوستان کا ڈیری شعبہ

‘‘غذائیت اور آمدنی کے استحکام کی بنیاد’’

Posted On: 29 SEP 2025 10:46AM

تعارف

پنجاب کے ضلع روپ نگر کے گاؤں اجولی کی محترمہ گرووندر کور نے ترقی کی راہ کے طور پر ڈیری کا انتخاب کیا۔ 2014 میں ڈیری ڈیولپمنٹ ڈیپارٹمنٹ سے تربیت حاصل کرنے کے بعد انہوں نے ایک ہولسٹین فریشین گائے سے آغاز کیا۔ ہولسٹین بڑی جسامت  والے جانور ہوتے ہیں جن کے رنگ سیاہ و سفید یا سرخ و سفید دھاریوں والے ہوتے ہیں۔ یہ نسل ہالینڈ سے ماخوذ ہے۔ لگن اور سائنسی طریقۂ کار کے ساتھ، انہوں نے اپنے ریوڑ کو بڑھا کر چار دودھ دینے والی ہولسٹین فریشین گائیں پالیں اور یومیہ تقریباً 90 لیٹر دودھ کی پیداوار شروع کی۔ یہ دودھ  ‘‘ورکا ڈیری’’  اور مقامی صارفین کو فراہم کیا جاتا ہے، جس سے انہیں مستحکم آمدنی اور سماجی پہچان حاصل ہوئی۔ انہوں نے چارہ کاٹنے کی مشین، دودھ نکالنے کی مشین اور سیلج یونٹ میں سرمایہ کاری کی، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ ٹیکنالوجی کس طرح منافع کو زیادہ سے زیادہ بنا سکتی ہے۔ سیلج دراصل سبز چارے کا خمیر شدہ ذخیرہ ہوتا ہے جو سال بھر مویشیوں کے لیے متوازن غذائیت فراہم کرتا ہے۔ ایک استاد کی امید افزا پیشہ ورانہ زندگی کو خیرباد کہہ کر ڈیری فارمنگ اختیار کرتے ہوئے، انہوں نے ثابت کیا کہ علم، خاندانی تعاون اور عزم کے ساتھ ایک خاتون کسان ایک کامیاب ڈیری انٹرپرائز قائم کر کے دوسروں کے لیے مشعلِ راہ بن سکتی ہے۔

 

دودھ غذائی تحفظ کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ یہ اعلیٰ معیار کا حیوانی پروٹین اور لازمی غذائی اجزاء کا بھرپور امتزاج فراہم کرتا ہے۔ اسے تقریباً مکمل غذا سمجھا جاتا ہے جو پروٹین، منرلز، وٹامنز، لیکٹوز اور دودھ کی چکنائی مہیا کرتا ہے۔ ڈیری مصنوعات ہر عمر کے افراد کو غذائیت فراہم کرتی ہیں، جسمانی نشوونما، ہڈیوں کی مضبوطی اور فعال طرزِ زندگی میں معاون بنتی ہیں۔ کیلشیم، میگنیشیم، پوٹاشیم اور دیگر خوردہ  غذائی اجزاء آسانی سے جذب ہونے والی شکل میں فراہم کر کے دودھ صحت مند نشوونما میں اہم کردار ادا کرتا ہے، خاص طور پر بچپن کے دوران۔

بھارت کئی برسوں سے دودھ کی پیداوار میں دنیا بھر میں پہلے مقام پر ہے اور دنیا کی مجموعی پیداوار کا تقریباً ایک چوتھائی  حصہ فراہم کرتا ہے۔ ڈیری کا شعبہ دیہی معیشت کے سب سے مضبوط ستونوں میں سے ایک بن چکا ہے اور خوراک و غذائی تحفظ میں مرکزی کردار ادا کر رہا ہے۔ فی الحال، ڈیری بھارت کی سب سے بڑی زرعی پیداوار ہے جو قومی معیشت میں 5 فیصد تعاون دیتی ہے اور نیشنل اکاونٹس اسٹیٹسٹکس (قومی کھاتا شماریات) کے مطابق براہِ راست 8 کروڑ سے زائد کسانوں کو روزگار فراہم کرتی ہے۔ یہ شعبہ 8 کروڑ سے زیادہ دیہی خاندانوں سے جڑا ہوا ہے جن میں سے اکثر چھوٹے اور معمولی کسان ہیں۔ دودھ کی پیداوار اور ذخیرہ اندوزی میں خواتین کا نمایاں کردار ہے، جس کے باعث ڈیری کا شعبہ جامع ترقی کا ایک مضبوط محرک بن گیا ہے۔

 

شعبے کی ترقی: ایک جائزہ

 

مجموعی پیداوار

گزشتہ دہائی کے دوران بھارت کے ڈیری شعبے نے نمایاں ترقی دکھائی ہے۔ دودھ کی پیداوار 2014-15 میں 146.30 ملین ٹن سے بڑھ کر 2023-24 میں 239.30 ملین ٹن تک جا پہنچی، جو 63.56 فیصد اضافہ  ظاہر کرتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ملک نے گزشتہ 10 برسوں میں اوسطاً 5.7 فیصد سالانہ ترقی کی شرح برقرار رکھی۔ خوراک و زراعت کی تنظیم (ایف اے او) کے اعداد و شمار کی تصدیق کرتے ہیں کہ بھارت بدستور دنیا کا سب سے بڑا دودھ پیدا کرنے والا ملک ہے اور اس نے امریکہ، پاکستان، چین اور برازیل جیسے ممالک کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

فی کس دستیابی

گزشتہ دہائی کے دوران بھارت میں فی کس دودھ کی دستیابی میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ فی کس دستیابی میں 48 فیصد کا اضافہ ہوا ہے اور 2023-24 میں یہ بڑھ کر 471 گرام یومیہ فی شخص تک پہنچ گئی ہے۔ یہ عالمی اوسط یعنی تقریباً 322 گرام یومیہ فی شخص سے کہیں زیادہ ہے۔

 

 

بَوَائن آبادی میں اضافہ

بھارت کے 303.76 ملین بَوَائن (جس میں گائے، بھینس، متھن اور یاک شامل ہیں) ڈیری پیداوار اور زرعی کاموں کے لیے قوتِ محرکہ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ 74.26 ملین بھیڑ اور 148.88 ملین بکریاں بھی اس کا اہم حصہ ہیں ، خصوصاً خشک اور نیم خشک علاقوں میں دودھ کی پیداوار کے لیے۔ 2014 سے 2022 کے درمیان بھارت نے بَوَائن کی پیداواری صلاحیت (کلوگرام/سال) میں 27.39 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا، جو دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے اور چین، جرمنی اور ڈنمارک جیسے ممالک سے کہیں آگے ہے۔ یہ اضافہ عالمی اوسط 13.97 فیصد سے نمایاں طور پر زیادہ ہے۔

 

 

بَوَائن آبادی میں اس اضافہ کا سبب ایسے منصوبے ہیں جیسے راشٹریہ گوکل مشن، جو بَوَائن افزائش، جینیاتی بہتری اور نسلوں کی پیداواری صلاحیت بڑھانے پر مرکوز ہے۔ اسی طرح، لائیو اسٹاک ہیلتھ ڈیزیز کنٹرول پروگرام (ایل ایچ ڈی سی پی) کے تحت موبائل ویٹرنری یونٹس (ایم وی یوز) قائم کیے گئے ہیں، جو جانوروں کے علاج کے لیے بیماری کی تشخیص، علاج، ویکسی نیشن، چھوٹے سرجیکل آپریشنز، آڈیو ویزوئل معاونت اور آگاہی خدمات براہِ راست کسانوں کے دروازے تک فراہم کرتے ہیں۔

مزید برآں، آیوروید کو جدید ویٹرنری طریقۂ کار کے ساتھ مربوط کیا جا رہا ہے تاکہ مویشیوں کی صحت کو پائیدار بنایا جا سکے۔ ایتھنو ویٹرنری میڈیسن (ای وی ایم)  اینٹی بایوٹک کے خلاف مزاحمت سے نمٹنے کے لیے ایک کم لاگت اور ماحول دوست متبادل ہے۔ بَوَائن ماسٹیٹس  کے علاج میں اس کے استعمال نے یہ امید پیدا کی ہے کہ مصنوعی ادویات پر انحصار کم ہوگا اور صحت مند و مضبوط ڈیری نظام کو فروغ ملے گا۔

ڈیری کوآپریٹو نیٹ ورک کی مضبوطی

بھارت کا ڈیری کوآپریٹو شعبہ وسیع اور منظم ہے۔ 2025 تک، اس میں 22 ملک فیڈریشنز، 241 ضلعی کوآپریٹو یونینز، 28 مارکیٹنگ ڈیریاں اور 25 ملک پروڈیوسر آرگنائزیشنز (ایم پی اوز) شامل ہیں۔ یہ تمام ادارے مل کر تقریباً 2.35 لاکھ دیہاتوں کااحاطہ کرتے ہیں اور 1.72 کروڑ ڈیری کسان ان کے رکن ہیں۔

ڈیری ترقی میں خواتین کا مرکزی کردار

بھارت کے ڈیری شعبے کی ایک نمایاں خصوصیت خواتین کا مضبوط کردار ہے۔ ڈیری فارمنگ کی ورک فورس میں تقریباً 70 فیصد خواتین شامل ہیں، اور تقریباً 35 فیصد خواتین ڈیری کوآپریٹوز میں فعال کردار ادا کرتی ہیں۔ پورے ملک میں 48,000 سے زیادہ خواتین کی قیادت والی ڈیری کوآپریٹو سوسائٹیاں گاؤں کی سطح پر کام کر رہی ہیں، جو دیہی برادریوں میں جامع ترقی اور خواتین کے بااختیار بنانے کا سبب بنتی ہیں۔

این ڈی ڈی بی ڈیری سروسز (این ڈی ایس) نے بھی 23 ِملک پروڈیوسر آرگنائزیشنز کی معاونت کی ہے، جن میں سے 16 مکمل طور پر خواتین کے زیرِ انتظام ہیں۔ ان آرگنائزیشنز کے بورڈز میں تمام پروڈیوسر ڈائریکٹرز خواتین ہیں، جو شعبے میں جامع ترقی کے لیے مثالی کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ ایم پی اوز تقریباً 12 لاکھ دودھ پیدا کرنے والوں کو 35,000 دیہات سے جوڑتے ہیں، جس سے کوآپریٹو نظام ملک کی ڈیری ترقی کا ایک مضبوط ستون بن گیا ہے۔

 

اس تبدیلی کا اثر واضح طور پر نظر آتا ہے۔ خواتین پر مشتمل شریجا ِملک پروڈیوسر آرگنائزیشن کو خواتین کو بااختیار بنانے میں نمایاں خدمات کے اعتراف میں شکاگو میں ورلڈ ڈیری سمٹ کے دوران انٹرنیشنل ڈیری فیڈریشن کی جانب سے ڈیری انوویشن ایوارڈ سے نوازا گیا۔

 

ہندوستان کی ڈیری انقلاب کا سفر

جدید ہندوستان کے ڈیری سفر کا آغاز 1965 میں نیشنل ڈیری ڈیولپمنٹ بورڈ ( این ڈی ڈی بی) کے قیام سے ہوا، جو آنند میں قائم کیا گیا۔ اس کا مقصد گجرات کے ضلع کیرا کے ڈیری کسانوں کو کیرا ڈسٹرکٹ کوآپریٹیو   ِملک پروڈیوسرز یونین  لمیٹڈ  میں منظم کرنے کے آنند کے تجربے کی کامیابی کو ملک بھر میں دہرایا جانا تھا، جو بعد میں امول  کا پیش خیمہ بنا۔ ورگھیس کُریئن کو این ڈی ڈی بی  کا پہلا چیئرمین مقرر کیا گیا۔ 1970 میں آپریشن فلڈ   شروع کیا گیا، جس کا مقصد ملک کے دودھ پیدا کرنے والے علاقوں میں آنند طرز کی کوآپریٹوز قائم کرنا تھا، جہاں سے جمع شدہ دودھ شہروں کو فراہم کیا جاتا تھا۔ اس منصوبے نے بالآخر بھارت کو دنیا کا سب سے بڑا دودھ پیدا کرنے والا ملک بنا دیا۔ بعد ازاں، 1987 میں پارلیمنٹ کے ایک ایکٹ کے ذریعے این ڈی ڈی بی کو قومی اہمیت کا ادارہ قرار دیا گیا۔

 

راشٹریہ گوکل مشن – ڈیری شعبے کی حمایت میں ایک اہم قدم

محکمۂ مویشی پروری  اور ڈیری فارمنگ 2014 سے راشٹریہ گوکل مشن (آر جی ایم ) پر عمل درآمد کر رہا ہے، جس کا مقصد مقامی گائے اور بھینس کی نسلوں کا فروغ  اور تحفظ، بَوَائن آبادی کی جینیاتی بہتری، اور دودھ کی پیداوار و پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہے۔ مارچ 2025 میں نظر ثانی شدہ راشٹریہ گوکل مشن کا آغاز کیا گیا، تاکہ مویشیوں کے شعبے کی ترقی کو تیز کیا جا سکے۔ یہ منصوبہ ڈویلپمنٹ پروگرام اسکیم کے مرکزی سیکٹر جزو کے طور پر نافذ کیا جا رہا ہے، جس کے لیے 1000 کروڑ روپے کا اضافی بجٹ رکھا گیا ہے، جس سے 15ویں مالیاتی کمیشن کے دورانیہ 2021–22 سے 2025–26 تک کل مختص رقم 3400 کروڑ روپے ہو گئی ہے۔

یہ اسکیم راشٹریہ گوکل مشن کی سابقہ سرگرمیوں کو جاری رکھتی ہے۔ اس کا مرکز سیمین اسٹیشن کو مضبوط کرنا، مصنوعی افزائش (آرٹی فیشئل انسیمینیشن ) کے نیٹ ورک کو بڑھانا، اور بُل پیداوار اور نسل کی سیکس اسٹورڈ سیمین کے ذریعے تیز رفتار بہتری کے پروگراموں کو نافذ کرنا ہے۔

راشٹریہ گوکل مشن اور حکومت کی دیگر کوششوں کے نتیجے میں پچھلے دس سالوں میں دودھ کی پیداوار میں 63.56 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اسی دوران بَوَائن کی پیداواری صلاحیت میں بھی 26.34 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

مصنوعی افزائش  (آرٹی فیشئل انسیمینیشن )  کا احاطہ

مصنوعی افزائش، دودھ کی پیداوار اور بَوَائن کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے والی سب سے مؤثر ٹیکنالوجیز میں سے ایک ہے۔ اس وقت بھارت میں قابل افزائش بَوَائن کا تقریباً 33فیصد حصہ اس طریقہ کار کے تحت شامل ہے۔ تقریباً 70 فیصد جانور اب بھی غیر معروف جینیاتی معیار والے اسکرب بیل کے ذریعے خدمات حاصل کر رہے ہیں۔

 2024-25 میں ملک بھر میں کل 565.55 لاکھ مصنوعی افزائش کی گئیں، جو سائنسی افزائش کے عمل کو بڑھانے اور مویشیوں کے معیار کو بہتر بنانے کی طرف ایک اہم قدم ہے۔

ملک گیر سطح پر مصنوعی افزائش پروگرام (این اے آئی پی)

راشٹریہ گوکل مشن کے تحت قومی مصنوعی افزائش پروگرام (این اے آئی پی) نے حالیہ برسوں میں مضبوط ترقی کی ہے۔ این اے آئی پی کے تحت مفت اے آئی  خدمات کسانوں کے دروازے تک فراہم کی جا رہی ہیں۔ اگست 2025 تک اس پروگرام نے 9.16 کروڑ جانوروں کا احاطہ کیا ، اور 14.12 کروڑ مصنوعی افزائش کی گئی، جس سے 5.54 کروڑ کسانوں کو فائدہ پہنچا۔

 

جدید تولیدی ٹیکنالوجیز

 

پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کے لیے 22 آی وی ایف  لیبز قائم کی گئی ہیں۔ 10.32 ملین خوراکیں  سیکس اسٹورڈ سیمین تیار کی گئیں، جن میں سے 70 لاکھ خوراکیں مصنوعی افزائش میں استعمال کی گئی ہیں۔ اس سے کسانوں کو زیادہ بچھڑیاں حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے اور دودھ کی پیداوار مضبوط ہوتی ہے۔

دیہی بھارت میں کثیرالمقصد  اے آئی  ٹیکنیشنز (میتریز)

کسانوں کے قریب افزائش کی خدمات پہنچانے کے لیے میتریز متعارف کروائے گئے ہیں۔ یہ ٹیکنیشن تین ماہ کی تربیت حاصل کرتے ہیں اور ضروری آلات کے لیے 50,000 روپے تک کی گرانٹ حاصل کرتے ہیں۔ تین سال کے بعد یہ لاگت کی وصولی کے ذریعے خود کفیل بن جاتے ہیں۔ پچھلے چار سالوں میں 38,736 میتریز کو شامل کیا گیا ہے اور اب  یہ خدمات براہِ راست کسانوں کے دروازے تک فراہم کر رہے ہیں۔

مویشیوں کے بچوں کی جانچ اور نسل کی افزائش

دودھ کی پیداوار ایک سیکس لمیٹڈ ٹریٹ  ہے، اس لیے کسی بیل کی جینیاتی اہمیت اس کے بچوں  کی کارکردگی سے ناپی  جاتی ہے۔ اس سائنسی عمل کو پروجینی ٹیسٹنگ  کہا جاتا ہے، جو بیلوں کی جینیاتی صلاحیت کا اندازہ لگانے میں مدد دیتا ہے۔

2021 سے 2024 کے دوران 3,747 پروجینی ٹیسٹنگ بیل پیدا کیے گئے، جو پانچ سالہ ہدف 4,111 کے قریب ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ 132 نسلِ افزائش فارمس کی منظوری دی گئی تاکہ معیاری جانوروں کی دستیابی کو مضبوط بنایا جا سکے۔

مستقبل کا وژن: سفید انقلاب 2.0

سفید انقلاب 2.0 کے لیے اسٹنڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر (ایس او پی) کو 19.09.2024 کو متعارف کروایا گیا، اور 25.12.2024 کو رسمی طور پر اس کا آغاز کیا گیا۔ اس کا مقصد ڈیری کوآپریٹوز کو مضبوط کرنا، روزگار پیدا کرنا اور خواتین کو بااختیار بنانا ہے۔ یہ منصوبہ پانچ سالہ مدت 2024-25 سے 2028-29 تک نافذ کیا جائے گا۔ توقع ہے کہ 2028-29 تک ڈیری کوآپریٹوز کے ذریعے دودھ کی خریداری روزانہ 1007 لاکھ کلوگرام تک پہنچ جائے گی۔ منصوبہ درج ذیل نکات پر مشتمل ہے:

 

  1. ڈیری کوآپریٹوز کی رسائی کو بڑھانا: 75,000 نئی ڈیری کوآپریٹو سوسائٹیز کے قیام کے ذریعے ہر غیر شامل گاؤں میں خواتین کسانوں کو منظم ڈیری شعبے میں شامل کیا جائے گا۔
  2. موجودہ 46,422 ڈیری کوآپریٹو سوسائٹیز کو مضبوط بنانا۔
  3. ڈیری شعبے میں پائیداری اور سرکلری معیشت کو فروغ دینا: تین خصوصی ملٹی اسٹیٹ کوآپریٹیو سوسائیٹیز ( ایم ایس سی ایس) قائم کی جائیں گی جو درج ذیل سرگرمیاں انجام دیں گی:
  1. مویشیوں کے چارے، منرل مکسچر اور دیگر تکنیکی اجزاء فراہم کرنا۔
  2. قدرتی کھاد کی پیداوار اور فضلہ کے پائیدار استعمال کو فروغ دینا، گائے کے گوبر اور زرعی فضلہ کو قدرتی کھاد اور بایوگیس میں تبدیل کر کے ماحول دوست کھاد کی بڑھتی ہوئی مانگ اور قومی پائیداری کے اہداف میں تعاون دینا۔
  3. مردہ جانوروں کی کھال، ہڈیاں اور سینگ کے انتظام کا نظام قائم کرنا۔

خلاصہ

بھارت کا ڈیری شعبہ دیہی معاشیات کی ریڑھ کی ہڈی اور جامع ترقی کی علامت ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے دودھ پیدا کرنے والے ملک کے طور پر، بھارت نے کسانوں کی قیادت میں کوآپریٹوز، خواتین کی شمولیت اور سائنسی طریقوں کو ملا کر شاندار ترقی حاصل کی ہے۔ وائٹ ریولوشن 2.0 کی رفتار کے ساتھ، یہ شعبہ پیداواری صلاحیت کو بڑھانے، مواقع کو وسعت دینے اور دیہی خوشحالی کو مسلسل تبدیل کرنے کے لیے تیار ہے۔

 

حوالہ جات

زراعت اور کسانوں کی بہبود کی وزارت

https://agriwelfare.gov.in/Documents/Success-Story-For-approval.pdf

محکمہ مویشی پروری اور ڈیریئنگ

https://dahd.gov.in/sites/default/files/2025-05/Annual-Report202425.pdf

https://dahd.gov.in/sites/default/files/2025-08/DAHDDashboard-28-07-2025.pdf

https://dahd.gov.in/schemes/programmes/didf

https://www.dahd.gov.in/schemes/programmes/ahidf

قومی ڈیری ڈیولپمنٹ بورڈ

https://www.nddb.coop/sites/default/files/pdfs/NDDB_AR_2023_24_Eng.pdf

https://www.nddb.coop/about/genesis/flood

https://www.nddb.org/about/genesis/ndpibrief

حکومت آسام

https://dairy.assam.gov.in/portlets/farmers%E2%80%99-entrepreneurs%E2%80%99-corner

https://fpcapart.assam.gov.in/uploads/documents/Commercial%20Silage%20Making%20Unit-application-.pdf

پی آئی بی ریلیز

https://www.pib.gov.in/PressNoteDetails.aspx?id=154532&NoteId=154532&ModuleId=3

https://www.pib.gov.in/PressReleaseIframePage.aspx?PRID=2114715

https://www.pib.gov.in/PressReleseDetailm.aspx?PRID=2114745

https://www.pib.gov.in/PressNoteDetails.aspx?ModuleId=3&NoteId=154532&id=154532

https://www.pib.gov.in/PressReleasePage.aspx?PRID=2115197

    https://www.pib.gov.in/PressReleasePage.aspx?PRID=2077029

https://www.pib.gov.in/PressReleaseIframePage.aspx?PRID=1897077

https://www.pib.gov.in/PressReleaseIframePage.aspx?PRID=2114715

https://www.pib.gov.in/PressReleaseIframePage.aspx?PRID=1897077

https://www.pib.gov.in/PressReleasePage.aspx?PRID=2158331

https://www.pib.gov.in/PressReleseDetailm.aspx?PRID=2152464

https://www.pib.gov.in/PressReleasePage.aspx?PRID=2112788

https://www.pib.gov.in/PressReleasePage.aspx?PRID=2115197

https://www.pib.gov.in/PressReleasePage.aspx?PRID=2158331

https://www.pib.gov.in/PressReleasePage.aspx?PRID=2101849

https://www.pib.gov.in/PressReleasePage.aspx?PRID=2158322

https://www.pib.gov.in/PressReleasePage.aspx?PRID=2170427

Click here to see PDF

*****

ش ح۔ ش ت۔ خ م

(U N.6763)

(Backgrounder ID: 155304) Visitor Counter : 2
Provide suggestions / comments
Read this release in: English , Hindi
Link mygov.in
National Portal Of India
STQC Certificate