• Skip to Content
  • Sitemap
  • Advance Search
Energy & Environment

شمسی توانائی  میں تیزی: خالص صفر مستقبل کی جانب ہندوستان کی جرأت مندانہ چھلانگ

Posted On: 19 AUG 2025 5:25PM

‘‘گرین فیوچر، نیٹ زیرو’’ صرف دلکش الفاظ نہیں ہیں بلکہ یہ قابل تجدید توانائی میں سرمایہ کاری اور اختراع کے لیے ہندوستان کی ضرورت اور عزم کی عکاسی کرتے ہیں۔[1]

وزیر اعظم نریندر مودی

اہم باتیں

  • ہندوستان نصب قابل تجدید توانائی کی صلاحیت میں اور ہوا کی  توانائی میں چوتھے اور شمسی توانائی کی صلاحیت میں تیسرے  مقام پر ہے (بین الاقوامی قابل تجدید توانائی ایجنسی آر ای شماریات 2025)۔
  • ہندوستان نے 1,08,494 جی ڈبلیو ایچ شمسی توانائی پیدا کی، جو جاپان کی 96,459 جی ڈبلیو ایچ  سے زیادہ ہے۔ ہندوستان دنیا کا تیسرا سب سے بڑا شمسی توانائی پیدا کرنے والا ملک بن گیا ہے۔
  • مالی سال 2024-25 کے دوران ہندوستان کی سولر ماڈیول مینوفیکچرنگ کی صلاحیت 38 جی ڈبلیو سے بڑھ کر 74 جی ڈبلیو ہو گئی۔
  • قابل تجدید ذرائع اب ہندوستان کی 484.82 گیگاواٹ کی کل نصب شدہ بجلی کی صلاحیت کا 50.07 فیصد حصہ ہے -  یہ سی پی او26 کے عزائم ہیں جو2030 کے ہدف سے پانچ سال پہلے حاصل کیا گیا ہے۔

 

تعارف

صرف ایک دہائی قبل ہندوستان کا شمسی توانائی کا منظر اپنے ابتدائی دور میں تھا، شمسی پینل صرف چند چھتوں پر اور صحراؤں میں دکھائی دیتے تھے۔ آج یہ ملک تاریخ رقم کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔ ہندوستان باضابطہ طور پر جاپان کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کا تیسرا سب سے بڑا شمسی توانائی پیدا کرنے والا ملک بن گیا ہے۔ بین الاقوامی قابل تجدید توانائی ایجنسی ( آئی آر ای این اے) کے مطابق، ہندوستان نے 1,08,494  جی ڈبلیو ایچ شمسی توانائی پیدا کی جو جاپان (96,459  جی ڈبلیو ایچ) کو پیچھے چھوڑتی ہے۔

جولائی 2025 تک ہندوستان کی مجموعی شمسی توانائی کی صلاحیت 119.02 گیگاواٹ رہی۔ اس میں زمین پر نصب سولر پلانٹس سے 90.99 گیگاواٹ، گرڈ سے منسلک چھتوں کے نظام سے 19.88 گیگاواٹ، ہائبرڈ پراجیکٹس سے 3.06 گیگا واٹ اور آف گرڈ سولر تنصیبات سے  ملک میں 5.09 گیگاواٹ شامل ہیں۔

قابل تجدید توانائی کے شعبہ میں ہندوستان کی ترقی قومی قیادت میں ملک کی مرکوز پالیسیوں اور اسٹریٹجک منصوبہ بندی کی عکاسی کرتی ہے۔سی او پی 26 میں کی گئی قرارداد کے مطابق 2030 تک 500 گیگا واٹ غیر فوسل  ایندھن سے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کے ہدف تک پہنچنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اس عزم کو ہندوستان کی صاف توانائی کی تبدیلی اور اس کے وسیع تر آب و ہوا کے اہداف کی طرف ایک اہم قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

ہندوستان  کی شمسی صلاحیت میں ریکارڈ اضافہ

ہندوستان  ٹروپیکل خطہ میں واقع ہے، جس میں کینسر  ٹراپک کئی ریاستوں سے گزرتا ہے۔ اس سے ملک کو شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کی بے پناہ صلاحیت ملتی ہے۔ ہندوستانی براعظم کی کل شمسی توانائی کی صلاحیت 748 گیگاواٹ ہے۔ راجستھان، جموں اور کشمیر، مہاراشٹر، مدھیہ پردیش اور آندھرا پردیش جیسی ریاستوں/مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں ملک میں شمسی توانائی کی سب سے زیادہ صلاحیت ہے، جو انہیں ہندوستان کی صاف توانائی کی ترقی کے کلیدی محرک بناتی ہے۔

 خطے                                                                                                       اعلی صلاحیت کے ساتھ بڑی ریاستیں

شمالی اور مغربی                                                                                                     راجستھان، گجرات

جنوبی اور وسطی                                                                                        کرناٹک، تمل ناڈو، آندھرا پردیش

مشرقی اور دیگر                                                                                              مہاراشٹر، چھتیس گڑھ، اوڈیشہ

 

ہندوستان کی شمسی توانائی کی صلاحیت جولائی 2025 تک 4,000 فیصد بڑھ گئی تھی اور ملک کی کل قابل تجدید توانائی کی صلاحیت 227 جی ڈبلیو  تک پہنچ گئی تھی۔ جموں اور کشمیر کا پالی گاؤں ایک قابل ذکر مثال بن گیا، جو مکمل طور پر شمسی توانائی پر چلتے ہوئے ہندوستان کی پہلی کاربن نیوٹرل پنچایت کے طور پر ابھرا۔ مستقبل میں توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے توانائی ذخیرہ کرنے اور نئی ٹیکنالوجیز کو اپنانے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ ‘پردھان منتری سوریہ گھر یوجنا’ اور ‘پردھان منتری کسم یوجنا’ جیسی سرکاری اسکیمیں کنبوں  اور کسانوں کو صاف ستھری شمسی توانائی کو اپنانے میں مدد دینے میں اہم رول ادا کر رہی ہیں۔

گھریلو شمسی مینوفیکچرنگ کو فروغ

 

ہندوستان کا سولر مینوفیکچرنگ سیکٹر کلیدی اجزاء پر مشتمل ہے جیسے سولر ماڈیول، سولر پی وی سیل، اور انگوٹ اور ویفر۔ ملک میں ان کی پیداوار ملکی معیشت کو سہارا دیتی ہے اور درآمدات پر انحصار کم کرتی ہے۔ صرف ایک سال  کی مدت کے دوران  سولر ماڈیول کی تیاری کی صلاحیت تقریباً دوگنی ہو گئی ہے۔ مارچ 2024 میں 38  گیگا واٹ  سے بڑھ کر مارچ 2025 میں 74  گیگا واٹ  ہو گیا ہے۔ اسی طرح سولر پی وی سیل مینوفیکچرنگ 9 جی ڈبلیو سے بڑھ کر 25 جی ڈبلیو ہو گئی ہے۔ ایک اہم سنگ میل ہندوستان کے پہلے‘ ان گوٹس –ٹو-وافر’ مینوفیکچرنگ پلانٹ (2 گیگاواٹ) کا آغاز تھا، جس نے پورے شمسی سپلائی چین کو مزید مضبوط کیا۔

ملکی صلاحیت میں یہ تیز اضافہ حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے ہے۔ ہندوستان میں تیار کردہ شمسی مصنوعات کو فروغ دینے کے لیے حکومت نے روف ٹاپ سولر پروگرام، پی ایم –کسم اور دیگر سی پی ایس یو جیسی اسکیموں کے تحت پروجیکٹوں کے لیے ہندوستان میں تیار کردہ پینلز اور سیلز کو استعمال کرنا لازمی قرار دیا ہے۔ اس تبدیلی کو مزید موثر بنانے کے لیے اپریل 2022 میں درآمداتی سولر سیلز اور ماڈیولز پر ایک بنیادی کسٹم ڈیوٹی ( بی سی ڈی) لگائی گئی۔ اس سے درآمدات مہنگی ہو جاتی ہیں اور ہندوستانی  آپشنز  اور مقامی مینوفیکچرنگ کے استعمال کو فروغ ملتا ہے اور غیر ملکی سپلائرز پر انحصار کم ہوتا ہے۔

abc.jpg

شمسی توانائی کے میدان میں اہم اقدامات:

حکومت نے ملک بھر میں شمسی توانائی کو اپنانے اور ترقی کو فروغ دینے کے لیے کئی بڑے اقدامات شروع کیے ہیں:

1. پی ایم سوریہ گھر: مفت بجلی اسکیم

acc.jpg

 

پردھان منتری سوریہ گھر مفت بجلی کی اسکیم 75,021 کروڑ روپے کی ایک مرکزی اسکیم ہے جس کا مقصد ایک کروڑ ہندوستانی گھرانوں کو ان کی چھتوں پر شمسی پینل لگا کر ماہانہ 300 یونٹس تک مفت بجلی فراہم کرنا ہے۔ حکومت 1 کلو واٹ کے لیے 30,000 روپے، 2 کلو واٹ کے لیے 60,000 روپے اور 3 کلو واٹ یا اس سے زیادہ صلاحیت کے چھت والے سولر سسٹم کے لیے 78,000 روپے کی سبسڈی فراہم کرتی ہے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی خاندان اس سسٹم کو انسٹال کرنے کے لیے قرض لیتا ہے، تب بھی وہ ماہانہ قرض  ای ایم آئی کی ادائیگی کے بعد ہر سال بجلی کے بلوں میں تقریباً 15,000 روپے بچا سکتا ہے۔

پی ایم سوریہ گھر کے لیے درخواست کا عمل درج ذیل ہے:

az.jpg

پی ایم - کسم (وزیر اعظم کسان توانائی کی حفاظت اور ترقی کی مہم)

پی ایم-کسم اسکیم کسانوں کو ڈیزل کے بجائے شمسی توانائی کے استعمال میں مدد کرتی ہے۔ کسان نئے سولر پمپ لگانے یا پرانے پمپوں کو شمسی توانائی میں تبدیل کرنے پر 30 فیصد سے 50 فیصد تک سبسڈی حاصل کر سکتے ہیں۔ وہ اپنی زمین پر 2 میگاواٹ تک کے سولر پاور پلانٹس بھی لگا سکتے ہیں اور مقامی ڈسکام کو بجلی بیچ کر پیسہ کما سکتے ہیں۔ اس اسکیم کو ریاستی نفاذ کرنے والی ایجنسیاں چلاتی ہیں۔ اس کا مقصد ہندوستان میں کسانوں کے لیے توانائی کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس کے قومی متعین کنٹریبیوشن (آئی این ڈی سی) کے حصے کے طور پر 2030 تک غیر فوسل ایندھن کے ذرائع سے برقی طاقت کی نصب صلاحیت کے حصہ کو 50 فیصد تک بڑھانے کے ہندوستان کے عزم کا احترام کرنا ہے۔

سولر پارک اسکیم

حکومت مارچ 2026 تک 40 گیگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے ہدف کے ساتھ بڑے گرڈ سے منسلک سولر پاور پلانٹس کے قیام کے لیے ‘سولر پارکس اور الٹرا میگا سولر پاور پروجیکٹس کی ترقی’ کے نام سے ایک اسکیم چلا رہی ہے۔ اب تک 13 ریاستوں میں 53 سولر پارکس کی منظوری دی گئی ہے جن کی کل صلاحیت تقریباً 932  ایم ڈبلیو ہے۔ ان میں سے 18 پارکس (10,856 میگاواٹ) مکمل طور پر تیار ہیں، جہاں 10,756 میگاواٹ صلاحیت کے شمسی توانائی کے منصوبے پہلے ہی کام کر رہے ہیں۔ مزید 8 پارکس (10,043 میگاواٹ) میں 3140 میگاواٹ کی صلاحیت کے شمسی منصوبے جاری ہیں۔ مجموعی طور پر 26 سولر پارکس میں 13896 میگاواٹ کی صلاحیت کے شمسی توانائی کے منصوبے شروع کیے گئے ہیں، جب کہ باقی پارکس ابھی بھی زیر تعمیر ہیں۔ ہندوستان میں صاف توانائی کی ترقی نہ صرف کاربن کے اخراج کو کم کر رہی ہے بلکہ زندگیوں کو بھی بدل رہی ہے۔ بڑے سولر پارک اب کم لاگت  پربجلی فراہم کرتے ہیں جبکہ گجرات اور تمل ناڈو میں ونڈ پاور پلانٹس شام کی بجلی کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ بایو انرجی پراجیکٹس روزگار کی تخلیق کے ذریعے دیہی آمدنی کو بڑھا رہے ہیں۔

پی ایم جن من: شمسی توانائی کے ذریعے پی وی ٹی جی کمیونٹیز کو بااختیار بنانا

پردھان منتری جنجاتی آدیواسی نیائے مہا ابھیان ( پی ایم- جن من) کو 9 وزارتوں کے ذریعے 11 اہم مداخلتوں کے ذریعے خاص طور پر کمزور قبائلی گروہوں ( پی وی ٹی جیز) کی ترقی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے شروع کیا گیا تھا۔ اس مشن اور دھرتی آبا جنجاتی گرام اتکرش ابھیان ( ڈی اے جے جی یو اے) کے تحت ایک اہم پہل نئی سولر انرجی اسکیم ہے جس کا مقصد 18 ریاستوں میں قبائلی اور پی وی ٹی جی  بستیوں میں ایک لاکھ غیر برقی گھرانوں کو بجلی فراہم کرنا ہے تاکہ دوبارہ قبائلی علاقوں میں جامع ترقی اور پائیدار توانائی کی رسائی کو فروغ دیا جا سکے۔

سولر پی وی مینوفیکچرنگ کی صلاحیت میں اضافہ13

ہندوستان کی سولر پی وی سیل مینوفیکچرنگ کی صلاحیت 2014 سے تقریباً 21 گنا بڑھ گئی ہے جو 2014 میں 1.2 گیگا واٹ سے مارچ 2025 تک تقریباً 25 گیگا واٹ ہو گئی ہے۔ اسی طرح سولر پی وی ماڈیول کی تیاری کی صلاحیت 34 گنا سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔  مارچ 2020میں 2.3  گیگا واٹ ہو گئی ہے۔

دیگر کلیدی  اقدامات

فلوٹنگ (تیرتے) سولر  پروجیکٹ:

مدھیہ پردیش میں اومکاریشور فلوٹنگ سولر پارک 600 میگاواٹ کی منصوبہ بند صلاحیت کے ساتھ ایشیا کے سب سے بڑے  فلوٹنگ  سولر پارکس میں سے ایک ہے۔ اس کی لاگت 330 کروڑ روپے ہے اور مرکزی حکومت 49.85 کروڑ روپے کی گرانٹ فراہم کر رہی ہے۔ یہ سولر پروجیکٹ زمین کو بچانے اور زیادہ موثر طریقے سے کام کرنے کے لیے آبی ذخائر پر نصب کیے گئے ہیں۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image007KVA4.jpg

ایگریوولٹیکس :

ایگریوولٹیکس  شمسی پینل استعمال کرتے ہیں اور ان کے نیچے کاشتکاری کی اجازت دیتے ہیں اس طرح زمین کے استعمال اور کسانوں کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے۔ دہلی میں سن ماسٹر پلانٹ اور جودھ پور میں آئی سی اے آر کے ذریعہ نصب 105 کلو واٹ سسٹم جیسے منصوبے صاف توانائی کے میدان میں ہندوستان کی ترقی کو ظاہر کرتے ہیں۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image008ZCLB.jpg

ہندوستان کی عالمی شمسی قیادت: آئی  ایس اے اور  او اسی او ڈبلیو اوجی

انٹرنیشنل سولر الائنس (آئی ایس اے) : بین الاقوامی سولر الائنس، جو  ہندوستان اور فرانس نے 2015 میں سی او پی 21 میں شروع کیا تھا ، جس میں 100 سے زیادہ ممالک کا ایک عالمی اتحاد ہے جو شمسی توانائی کے ذریعے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے کام کر رہا ہے۔ اس کا مقصد 2030 تک 1 ٹریلین امریکی ڈالر  کی سرمایہ کاری کو متحرک کرنا، ٹیکنالوجی اور فنانسنگ کے اخراجات کو کم کرنا اور سستی شمسی حل کو فروغ دینا ہے۔ کم سے کم ترقی یافتہ ممالک اور چھوٹے جزیروں کی ترقی پذیر ریاستوں پر خصوصی توجہ کے ساتھ اتحاد کم کاربن کی ترقی کو لاگت سے موثر اور تبدیلی لانے والے توانائی کے حل کے ذریعے فروغ دینا چاہتا ہے17۔

ایک سوریہ، ایک وشو-ایک گرڈ( او ایس او ڈبلیو جی): 2018 میں آئی ایس اے اسمبلی میں ہندوستان کی طرف سے شروع کی گئی ہے، اس خیال کے تحت ایک عالمی شمسی گرڈ کا تصور کرتا ہے کہ 'سورج کبھی غروب نہیں ہوتا' آئی ایس اے کی قیادت میں اس کا مقصد شمسی وسائل کو جوڑنا ہے جو پہلے سے ہی جنوبی ایشیاء اور یوروپ کے تمام خطوں کے لیے فریم ورک کے تحت ہیں۔

 

ہندوستان کا قابل تجدید سیکٹر: ایک جائزہ

ہندوستان کا توانائی کا شعبہ بجلی پیدا کرنے کے لیے بہت سے مختلف ذرائع استعمال کرتا ہے۔ ان میں فوسل ایندھن جیسے کوئلہ، گیس، لگنائٹ، ڈیزل کے ساتھ ساتھ غیرفوسل ایندھن کے ذرائع جیسے شمسی، ہوا، ہائیڈرو، نیوکلیئر اور بائیو ماس شامل ہیں۔ ہندوستان کی بجلی کی مجموعی  صلاحیت اب تقریباً 485 گیگا واٹ تک پہنچ گئی ہے۔ اس میں سے 242 گیگا واٹ تھرمل پاور سے، 116 گیگا واٹ سولر پاور سے اور 51.6 گیگا واٹ ہوا(ونڈ) سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ صاف توانائی اور بہتر توانائی کی سلامتی کی طرف ہندوستان کے مضبوط اقدام کی عکاسی کرتا ہے۔

گزشتہ 11 برسوں میں ہندوستان نے قابل تجدید توانائی کے میدان میں نمایاں ترقی کی ہے۔ سی او پی26 میں مقرر کردہ ہدف کو پورا کرنے کے لیے نئی اور قابل تجدید توانائی کی وزارت 2030 تک غیر فوسل ایندھن کی 500 گیگا واٹ صلاحیت تک پہنچنے کے لیے کام کر رہی ہے۔

جون 2025 تک ہندوستان کے پاس 242.8 گیگا واٹ غیر فوسل ایندھن کی تنصیب کی صلاحیت ہوگی جس میں 233.99 گیگا واٹ قابل تجدید توانائی اور 8.8 گیگا واٹ جوہری توانائی شامل ہے۔ یہ اب ملک کی 484.82 گیگا واٹ بجلی کی کل صلاحیت کا 50.07 فیصد بنتا ہے۔ صرف قابل تجدید توانائی کی پیداوار 2014 میں 76.37 گیگاواٹ سے 2025 میں 233.99 گیگاواٹ تک تقریباً تین گنا بڑھ گئی ہے۔ یہ صاف اور پائیدار مستقبل کی طرف ایک مضبوط قدم کی عکاسی  کرتا ہے۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image0098Y80.jpg

ہندوستان نے مالی سال 2024-25 میں قابل تجدید توانائی کا ریکارڈ 29.52 گیگاواٹ اضافہ کیا، جس سے صاف توانائی کی مجموعی صلاحیت گزشتہ سال 190.57 گیگاواٹ سے بڑھ کر 220.10 گیگاواٹ ہو گئی۔ یہ پیشرفت ہندوستان کو 2030 تک 500 گیگا واٹ غیر فوسل صلاحیت کے اپنے ہدف کے قریب لاتی ہے، جو وزیر اعظم کے مقرر کردہ 'پنچامرت' آب و ہوا کے اہداف کے مطابق ہے۔20

 

ہندوستان تنصیب شدہ قابل تجدید توانائی کی صلاحیت میں عالمی سطح پر چوتھے نمبر پر ہے، ہوا سے بجلی کی صلاحیت میں چوتھے اور شمسی توانائی کی صلاحیت میں تیسرے نمبر پر ہے (آئی آر ای این اے  آر ی شماریات 2025 کے مطابق)۔21

 

ہندوستان کی قابل تجدید توانائی کی ترقی: 2014–2025

ہندوستان میں قابل تجدید توانائی کے شعبہ میں شمسی توانائی، ونڈ توانائی، پن بجلی اور بایو انرجی شامل ہیں، جو  فوسل ایندھن پر انحصار کم کرنے اور پائیدار ترقی کو فروغ دینے میں مدد کرتے ہیں۔ نصب شدہ قابل تجدید توانائی کی صلاحیت مارچ 2014 میں 76.37 گیگاواٹ سے بڑھ کر جون 2025 میں 233.99 گیگا واٹ ہونے کا امکان ہے۔ یہ تقریباً تین گنا اضافہ کی نمائندگی کرتا ہے۔

ونڈ انرجی

ہندوستان نے مالی سال 2024-25 میں 4.15 گیگا واٹ ونڈ پاور کا اضافہ کیا۔ اس کے ساتھ کل نصب صلاحیت 51.6 گیگاواٹ تک بڑھ گئی ہے۔

52.14 جی ڈبلیو نصب (31 جولائی 2025 تک) اور 30.10 گیگا واٹ کے نفاذ کے تحت سمندری ہوا کی طاقت میں ہندوستان عالمی سطح پر چوتھے نمبر پر ہے۔ 23 اپریل 2024 سے مارچ 2025 تک ہوا کی طاقت نے 83.35 بلین یونٹ بجلی پیدا کی جو کہ کل بجلی کی پیداوار کا 4.56 فیصد ہے۔ ملک میں ہوا سے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 1164 کی ڈبلیو ہے اور سالانہ پیداواری صلاحیت 18  گیگا واٹ ہے۔ آف شور ونڈ پاور کی ترقی کی رہنمائی نیشنل آف شور ونڈ انرجی پالیسی (2015) کرتی ہے جس کے ساتھ نئی اور قابل تجدید توانائی کی وزارت ہندوستان کی 7600 کلومیٹر طویل ساحلی پٹی کے ساتھ منصوبوں کے لیے نوڈل وزارت ہے۔

 

بایو انرجی

ہندوستان کے پاس 11.60 گیگا واٹ بایو انرجی کی صلاحیت ہے (جس میں 0.55 گیگا واٹ آف گرڈ اور ویسٹ ٹو انرجی شامل ہے) اور 5.10 گیگا واٹ چھوٹے ہائیڈرو سے 0.46 گیگا واٹ زیر تعمیر ہے۔ ملک بھر میں بایو توانائی کے منصوبے درج ذیل اجزاء کے تحت ہیں26:

  1. ویسٹ ٹو انرجی پروگرام (شہری، صنعتی اور زرعی فضلہ/ باقیات سے توانائی پر پروگرام)
  2. بایوماس پروگرام (بریکٹس اور چھروں کی تیاری میں معاونت اور صنعتوں میں بایوماس (نان بیگاس) کی بنیاد پر کو-جنریشن کو فروغ دینے کی اسکیم)
  3. بائیو گیس پروگرام (چھوٹے (1 ایم3 سے 25 ایم3 بایوگیس فی دن) اور درمیانے سائز کے بایو گیس پلانٹس کے قیام کو فروغ دینے کا پروگرام، یعنی 25 ایم3 سے 2500 ایم3 بایو گیس فی دن کی پیداوار)

بایو فیول (ایتھنول) ملاوٹ

ہندوستان اب دنیا کا تیسرا سب سے بڑا ایتھنول پیدا کرنے والا اور صارف ملک ہے۔ پیٹرول میں ایتھنول کی ملاوٹ جون 2022 میں 10 فیصد سے بڑھ کر فروری 2025 تک 17.98 فیصد ہو جائے گی۔ حکومت کا مقصد 2030.27 کے پہلے ہدف سے پہلے 2025-26 تک 20 فیصد ملاوٹ حاصل کرنا ہے۔ بایو ماس سے  تیار ایتھنول اور بایو ڈیزل کلیدی حیاتیاتی ایندھن ہیں جو نقل و حمل کے لیے فوسل ایندھن پر انحصار کم کرنے میں مدد کرتے ہیں۔

ہائیڈرو انرجی

 

گرین ہائیڈروجن پانی کو ہائیڈروجن اور آکسیجن میں تقسیم کرکے شمسی یا ہوا کی توانائی کا استعمال کرتے ہوئے بنایا جاتا ہے۔ یہ اسٹیل اور ٹرانسپورٹ جیسی صنعتوں میں فوسل فیول کی جگہ لے گا اور طویل مدتی صاف توانائی کا ذخیرہ فراہم کرے گا۔ گرین ہائیڈروجن کی مانگ تیزی سے بڑھ رہی ہے کیونکہ یہ ٹرانسپورٹ، شپنگ اور اسٹیل کی پیداوار جیسے کئی شعبوں میں اخراج اور آلودگی کو کم کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔ یہ گاڑیوں میں پیٹرول اور ڈیزل کی جگہ لے سکتا ہے، جو نقصان دہ اخراج کی بڑی وجہ ہیں۔ فیکٹریوں میں سبز ہائیڈروجن کو امونیہ، میتھانول اور اسٹیل جیسی چیزیں بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، جن کا اب بہت زیادہ انحصار فوسل فیول پر ہے۔ یہ توانائی کو ذخیرہ بھی کر سکتا ہے اور شمسی اور ہوا کی توانائی کے لیے بیک اپ کے طور پر کام کر سکتا ہے جو صاف توانائی کی مسلسل فراہمی کو یقینی بناتا ہے۔

نیشنل گرین ہائیڈروجن مشن حکومت ہند نے کاربن کے اخراج کو کم کرنے اور ہندوستان کو گرین ہائیڈروجن میں عالمی رہنما بنانے کے لیے شروع کیا تھا۔ 2030 تک اس کا مقصد ہر سال 50 لاکھ ٹن گرین ہائیڈروجن پیدا کرنا، 8 لاکھ کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کو راغب کرنا، 6 لاکھ ملازمتیں پیدا کرنا اور  فوسل ایندھن کی درآمدات میں 1 لاکھ کروڑ روپے کی بچت کرنا ہے۔ مشن پیداوار، پائلٹ پروجیکٹس، الیکٹرولائزر مینوفیکچرنگ، مہارت کی تربیت، بنیادی ڈھانچے اور تحقیق پر توجہ مرکوز کرتا ہے اور فولاد، نقل و حمل اور کھاد کے شعبوں میں فوسل ایندھن کو دیگر ایندھن سے تبدیل کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ 32 اس کو آگے بڑھانے کے لیے، تین بڑی بندرگاہوں یعنی کانڈلہ، پارا دیپ اور توتیکورن کی بندرگاہوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔وزارت کی طرف سے پانی کی بندرگاہوں کی سبز ہائیڈروجن حبس کے طور پر نشاندہی کی گئی ہے۔

 

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image0108RCB.jpg

حالیہ پالیسی فیصلے

  1. مرکزی وزیر پرہلاد جوشی نے 16 جولائی 2025 کو 2030 تک 500 گیگا واٹ غیر فوسل صلاحیت کے ہدف کے لیے ہندوستان کے عزم کا اعادہ کیا۔ کابینہ نے این ایل سی انڈیا لمیٹڈ کو اپنے قابل تجدید بازو این ایل سی انڈیارینیویبل لمٹیڈ(این آئی آر ایل) کو مضبوط کرنے کے لیے 7,000 کروڑ روپے کی امداد کی منظوری دی۔ یہ اقدام بڑے شمسی اور ہوا کے منصوبوں کو تیز کرے گا اور این آئی آر ایل کی صلاحیت کو موجودہ 2 جی ڈبلیو سے بڑھا کر 2030 تک 10  جی ڈبلیو اور 2047 تک 32  جی ڈبلیو  تک بڑھا دے گا، جس سے ہندوستان کوسی او پی26 اور نیٹ زیرو کے اہداف حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔
  2. ہندوستان 2030.35 تک 500 جی ڈبلیو غیر فوسل صلاحیت کے اپنے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے پانچ اہم ترجیحات پر توجہ مرکوز کر رہا ہے35۔
  1. بہتر معاہدے: سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے طویل مدتی پاور ڈیلز۔
  2. مضبوط گرڈ: بلاتعطل بجلی کی فراہمی کے لیے جدید گرڈ اور بیٹری اسٹوریج۔
  3. میک ان انڈیا: سولر پینلز اور ونڈ ٹربائن کی مقامی پیداوار کو فروغ دینا۔
  4. زمین کا اسمارٹ استعمال: کھیتوں میں تیرتی ہوئی شمسی توانائی اور شمسی توانائی کے ساتھ زمین کو سمجھداری سے استعمال کرنا۔

آسان فنانسنگ: صاف توانائی کے منصوبوں کے لیے فنڈنگ دستیاب کرانا

 

صاف توانائی میں ہندوستان کی تیزی سے منتقلی اسے پیرس معاہدے کے وعدوں کو پورا کرنے میں مقررہ وقت سے پہلے کر رہی ہے۔ غیرفوسل ایندھن کی صلاحیت کی ترقی کو تیز کرتے ہوئے ہندوستان توانائی کی حفاظت کو بڑھا رہا ہے، کوئلے کی درآمدات کو کم کر رہا ہے، ملازمتیں پیدا کر رہا ہے اور قابل اعتماد بجلی کی فراہمی کو مضبوط بنا رہا ہے۔ یہ پیشرفت موسمیاتی تبدیلی کے خلاف عالمی جنگ میں ہندوستان کے اہم کردار کی نشاندہی کرتی ہے36۔

پیرس معاہدہ 2015 میں اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن آن کلائمیٹ چینج (یو این ایف سی سی سی) کے تحت اپنایا گیا تھا۔37 پیرس معاہدے کے قومی سطح پر طے شدہ شراکت (این ڈی سی) کے تحت ہندوستان نے معیشت کی کاربن کی شدت کو 2005 کی سطح سے 45 فیصد تک کم کرنے کا عہد کیا ہے اور 2003 فیصد تک بجلی کا ہدف مقرر کیا ہے۔ 2030 تک غیر فوسل ایندھن پر مبنی توانائی کے وسائل سے نصب شدہ صلاحیت اب شیڈول سے پہلے پوری ہو رہی ہے۔

خلاصہ

ہندوستان تیزی سے سبز مستقبل کی طرف بڑھ رہا ہے۔ سولر پاور جنریشن کے 100 گیگاواٹ کے ہدف کو عبور کرنے کے بعد ملک 2030 تک 500 گیگا واٹ صاف توانائی اور 2070 تک خالص صفر توانائی تک پہنچنے کی راہ پر گامزن ہے۔ بڑے سولر پارکس، روف ٹاپ سولر اور پردھان منتری سوریہ گھر مفت بجلی کی اسکیم جیسے منصوبے کنبوں کو خود سے توانائی پیدا کرنے میں مدد کر رہے ہیں۔

ہندوستان نے ایک اہم سنگ میل حاصل کیا ہے۔ ملک کی نصب شدہ بجلی کی صلاحیت کا 50 فیصد اب پیرس معاہدے کے ہدف سے پانچ سال پہلے غیر فوسل ایندھن کے ذرائع سے آتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ترقی اور پائیداری ساتھ ساتھ چل سکتی ہے۔ گزشتہ دہائی میں ہندوستان کا توانائی کا سفر خود انحصاری، پائیداری اور اختراع کی طرف ایک اسٹریٹجک تبدیلی کی عکاسی کرتا ہے۔ گرین ہائیڈروجن سے لے کر شمسی چھتوں تک دیہی بجلی سے لے کر ڈجیٹل خریداری تک، ہر اقدام سب کے لیے شمولیت ، محفوظ اور صاف توانائی کے ہندوستان کے وژن کو اجاگر کرتا ہے۔ جیسے جیسے ملک آگے بڑھے گا، اس کی متوازن اور بہترین توانائی کی حکمت عملی اقتصادی ترقی اور ایک پائیدار مستقبل کو تقویت دیتی رہے گی۔

حوالہ جات

سی ایم او گجرات

https://cmogujarat.gov.in/en/latest-news/pm-shri-narendra-modi-inaugurates-4th-global-renewable-energy-investors-2024-summit-and

انڈیا برانڈ ایکوئٹی فاؤنڈیشن

https://www.ibef.org/news/india-becomes-third-largest-solar-energy-generator-union-minister-of-new-and-renewable-energy-mr-pralhad-joshi

نئی اور قابل تجدید توانائی کی وزارت

https://mnre.gov.in/en/physical-progress/

https://mnre.gov.in/en/production-linked-incentive-pli/

https://mnre.gov.in/en/notice/new-solar-power-scheme-for-pvtg-habitation-villages-under-pm-janman/

https://mnre.gov.in/en/wind-overview/

https://mnre.gov.in/en/off-shore-wind/

https://mnre.gov.in/en/hydrogen-overview/

https://mnre.gov.in/en/small-hydro-overview/

https://pmkusum.mnre.gov.in/#/landing

پی آئی بی

https://www.pib.gov.in/PressReleasePage.aspx?PRID=2117501

https://www.pib.gov.in/PressReleasePage.aspx?PRID=2143701

https://www.pib.gov.in/PressNoteDetails.aspx?NoteId=154545&ModuleId=3

https://www.pib.gov.in/PressReleasePage.aspx?PRID=2090177

https://www.pib.gov.in/PressReleasePage.aspx?PRID=2120941

https://www.pib.gov.in/PressReleasePage.aspx?PRID=2120729

https://www.pib.gov.in/PressReleasePage.aspx?PRID=2113234

https://www.pib.gov.in/PressReleasePage.aspx?PRID=2129952

https://www.pib.gov.in/PressReleaseIframePage.aspx?PRID=2079832

https://www.pib.gov.in/PressReleasePage.aspx?PRID=2145148

https://www.pib.gov.in/PressReleasePage.aspx?PRID=2144627

https://www.pib.gov.in/newsite/PrintRelease.aspx?relid=175438

https://www.pib.gov.in/PressReleasePage.aspx?PRID=1795071

https://www.pib.gov.in/PressReleasePage.aspx?PRID=2147982

https://www.pib.gov.in/PressReleasePage.aspx?PRID=2100603

https://www.pib.gov.in/PressReleasePage.aspx?PRID=1909955

https://www.pib.gov.in/PressReleaseIframePage.aspx?PRID=1983203

https://www.pib.gov.in/PressReleasePage.aspx?PRID=2010674

نیشنل پورٹل آف انڈیا

https://www.india.gov.in/spotlight/pm-kusum-pradhan-mantri-kisan-urja-suraksha-evam-utthaan-mahabhiyan-scheme

نیشنل سولر انرجی فاؤنڈیشن آف انڈیا

https://www.agrivoltaics.in/news

نیتی آیوگ

https://iced.niti.gov.in/energy/fuel-sources/solar/potential

امریکی محکمہ توانائی

https://www.energy.gov/eere/bioenergy/biofuel-basics

 

Click here to see pdf

*******

 

ش ح۔ ظ ا-ج  

UR  No. 4959

(Backgrounder ID: 155070) Visitor Counter : 2
Read this release in: English , Hindi
Link mygov.in
National Portal Of India
STQC Certificate